ہمارے طالب علمی کے زمانے میں جب کوئی بچہ آٹھویں کے امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتا تھا تو اس کا انٹر ویو لینے اخبار والے آ جاتے تھے اور اُس کے مستقبل کے بارے میں پوچھتے تھے تو وہ ایک ہی بات کہتا تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں گا۔ آٹھویں میں ہمارا ڈیپارمنٹل امتحان ہوتا تھا اور ہم اس کو بھی یونیورسٹی کا ہی امتحان کہتے تھے۔ اورا سی طرح میٹرک کے امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے واے بچے کے انٹرویو میں بھی جواب یہی ہوتا تھا کہ وہ ڈاکٹر بن کر قوم کی خدمت کرے گا۔ یہ اور بات کہ یہ اچھے نمبروں والے بچے پی ٹی سی کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اس لئے کہ ہمارے دور میں لوگوں کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہوا کرتے تھے کہ وہ اپنے بچوں کو کالج میں تعلیم دلوا سکیں۔ گو میٹرک اور ایف ایس سی میں برائے نام ہی فیس ہوتی تھی مگر یہ برائے نام فیس بھی کوئی کوئی ہی برداشت کر سکتا تھا۔ میرے ایک سکول کے ہم جماعت ڈاکٹر بن گئے اور ہم جب گورنمنٹ کالج ہری پور میں استاد تھے تو وہ ہری پور ہسپتال میں ڈاکٹر تعینات ہو کر آ گئے۔ ہمارے دوست پروفیسر سلیم صاحب نے کہا کہ چلیں ذرا ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرتے ہیں۔ہم اُن سے ملنے گئے تو ہمیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور اپنے سکو ل کے زمانے اور ہماری دوستی کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں بھی ماضی کی طرف لے گئے۔ ہم باتیں بھی کر رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب کے مریض بھی معائنے کیلئے آ رہے تھے۔ ان میں طرح طرح کے مریض تھے کچھ تو ایسے بھی تھے جن کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ ان کو تکلیف کیا ہے، ڈاکٹر صاحب پوچھتے تو وہ کبھی ایک بات کرتے اور کبھی دوسری۔ شاید ایسے ہی مریضوں کو ڈاکٹر صاحب جیسے ہی اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھتے توا پنے سامنے رکھے کاغذ پر نسخہ لکھنا شروع کر دیتے۔ میں نے کہا یار یہ کیا کرتے ہو۔ کم از کم مریض سے پوچھ تو لو کہ اُسے کیا تکلیف ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ مریض کا دور سے ہی پتہ چلتا ہے، جبکہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا مرض سب کا ایک ہی ہے کہ ہسپتا ل کے ڈاکٹر کو دکھانا ہے۔حالانکہ ان کی تکلیف ہسپتال کی بجائے علاقے میں موجود کسی بھی بنیادی صحت مرکز پر ہی رفع ہوجائے۔ یہ وجہ ہے کہ ہمارے ہسپتالوں پر اس قدر رش ہے کہ ڈاکٹر توجہ سے مریض کودیکھنے کے قابل ہی نہیں رہتے اور یہ وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کو دیکھتے ہی ہم سمجھ جاتے ہیں ہم ان کو براڈ سپکٹرم دوا لکھ دیتے ہیں اور ان سے یہ ٹھیک ہو جاتے ہیں ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ اب اس لمبی قطار کو کس طرح ختم کر سکتے ہیں۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور سینکڑوں مریض ہیں اور جو بھی مریض آئے ہوئے ہیں ان کو تسلی بھی دینی ہے اور اللہ تعالیٰ شفا دینے والا ہے۔ ہم جو کچھ لکھ کر دیتے ہیں اللہ ان کو شفادے دیتا ہے۔ اب اتنے بڑے ہجوم کو ایک وقت کے اندر دیکھنا اور دوا دینا ہے اس کیلئے ہم یہی کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمیں دیکھ کر افسوس بھی ہوا مگر کیا ہو سکتا ہے کہ ایک ڈاکٹر کو ایک محدود وقت میں سینکڑوں مریضوں کو دیکھنا اور دوا دینا ہے وہ اسی طرح سے ہی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ یہ تو ایسا ہے کہ کچھ دوایاں ایسی ہیں کہ وہ ہر مرض پر اثر کرتی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر مریض سیریس نہیں ہے تو اس کیلئے یہی نسخہ ٹھیک ہے اور یہ بھی ہے کہ ان میں سے صرف دس پندرہ ہی مریض ہیں باقی وقت ضائع کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ شہر کسی اور کام کو آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چلو ذرا ہسپتال سے چکر لگالیتے ہیں۔ ورنہ مریض جو بھی آتا ہے ہم اس کو اچھی طرح سے چیک کر کے دوا دیتے ہیں اور جو وقت ضائع کرنے والے ہیں ان کو اسی طرح سے ڈیل کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ نکتہ بھی بتایا کہ ان کے پاس ایسے مریض بھی آ جاتے ہیں کہ جو صرف نسخہ لکھواتے ہیں اور اس نسخے سے دوائیوں کی دکان سے رسید لے لیتے ہیں اور اپنے ڈیپارٹمنٹ سے منظورکروا لیتے ہیں۔ویسے دیکھا جائے تو حکومت کی طرف سے صحت سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے یہ نکتہ اہم ہے کہ ہر علاقے کے لوگ اپنے علاقے میں ہی صحت کی سہولیات سے استفادہ کریں تاہم بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جنہیں علاقے میں موجود صحت مرکز سے علاج کی بجائے شہر کے بڑے ہسپتال جانے میں ہی اطمینان ہوتا ہے چاہے ان کی بیماری معمولی سی ہو وہ بڑے ہسپتال پہنچ کراس رش کا حصہ بن جاتے ہیں۔