محکمانہ ترقی کاایک ایسا نظام جس میں ہر کوئی اپنی صلاحیتوں اور تجربے کوبروئے کار لاتے ہوئے اعلیٰ ترین منصب پر پہنچ سکتاہو، یقینا بہت سے مسائل کا حل ہے اور اس سے اداروں کی کارکردگی میں بھی بہتری آتی ہے جس کے نتیجے میں عوام کو خدمات کی معیاری فراہمی بھی یقینی ہوسکتی ہے کیونکہ کسی بھی ادارے میں اسی سے متعلق لوگوں کو جتنا اپنے ادارے کے بارے میں علم ہوتا ہے اتنا کسی دوسرے ادارے کے لوگوں کو نہیں ہوتا۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ایک خاص تربیت کے بعد کوئی ہر طرح کے کام کرنے کے قابل ہوسکتا ہے اور ہر محکمے کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ کسی بھی محکمے میں جو بھی لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں اُن کی قدرتی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ادارے کے سربراہ تک پروموشن حاصل کریں۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ جب بھی کوئی شخص کسی بھی ادارے میں بھرتی ہوتا ہے تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس ادارے میں ترقی کرتے کرتے ادارے کی سربراہی تک پہنچ جائے۔ ا ب ہوتا یہ ہے کہ ہمارے ہاں اعلیٰ مناصب پر فائز ہونے کیلئے ایک خاص تربیتی پروگرام ہوتا ہے۔مانا کی اس کیڈر کے لوگ لائق فائق ہوتے ہیں مگر لیاقت کا یہ بھی مطلب تو نہیں ہے کہ وہ ہر ادارے کی ان آؤٹ کا جانتے ہیں۔ ہر ادارے کی اپنی ڈیمانڈ ز ہوتی ہیں اور ہر ادارے کی مکمل معلومات اُسی ادارے کے سینئر لوگوں کو ہوتی ہے اس لئے کہ وہ ادارے میں سالوں سے کام کر رہے ہوتے ہیں اسی لئے عام طور پر یہ ہوتاہے کہ کسی بھی ادارے کی سربراہی اُسی ادارے کے سینئر ترین بندے کو دی جاتی ہے۔ مگر کچھ عرصے سے یہ کیا جا رہاہے کہ کسی بھی ادارے کی سربراہی کیلئے خاص تربیتی اور کورس کرنے والوں کو ہی تعینات کیا جاتا ہے۔اب یہ لوگ کتنے بھی سینئرکیوں نہ ہوں وہ اپنے کیڈر کے معمولات کو بہتر جانتے ہیں مگر کسی بھی دوسرے ادارے کے متعلق ان کی معلومات کسی بھی طور مکمل نہیں ہو سکتیں۔ سربراہی کا مطلب یہی تو نہیں ہوتا کہ ایک آدمی ایک دفتر میں بیٹھ جائے اور احکامات صادر کرتارہے جب کہ اُسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اس ادارے کا انفر اسٹرکچر ہے کیا۔اس تنقید کا مقصد یہ نہیں کہ یہ نظام یکسر ناکام ہے بلکہ اس میں بہتری کی گنجائش یقینا موجود ہے۔ اس کے علاوہ جو بات ذہن میں رکھنے کی ہے وہ یہ کہ کسی بھی ادارے کی سربراہی اُسی محکمے کی سینئر شخص کو کیوں نہ دی جائے کہ جو محکمے کے سارے حالات کو جانتا ہے۔ اور یہ بھی کہ جو شخص کسی بھی ادارے میں بھرتی ہوتا ہے اُس کی خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ادارے کو ہیڈ کرنے کی حد تک پہنچے۔ اور جب وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اُس کی ترقی آخری درجے تک پہنچ جائے تو نتیجہ کچھ اور سامنے آتا ہے۔ جب کہ اسی محکمے کا بندہ جو اس محکمے میں ایک عمر لگا چکا ہوتا ہے وہی اس محکمے کے اندرونی اور بیرونی حالات کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔تو کیوں نہ اُس بندنے کو سربراہی دی جائے۔ محکمے کے سینئر ترین بندے کو اُس محکمے کی سرراہی نہ دینا اُس کی حق تلفی ہے اور یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی شخص ایک محکمے کو اپنی ساری عمر دے چکا ہے اور اب اُس کا حق بنتا ہے کہ وہ اس محکمے کی سربراہی کرے تو اس کی جگہ کسی اورطرف سے بندہ لا کر بٹھا دینا کون سا طریقہ ہے۔ ایک ڈاکٹر اگر ساری عمر محکمے کو دے چکا ہے تو کیوں نہ اس کو سربراہی دی جائے۔ جب وہ اس قابل ہے کہ وہ محکمے کا سربراہ بن جائے تو کیوں نہ اس پر عمل کیا جائے۔ یوں محکموں میں فرسٹریشن پھیلتی ہے کہ اُن کے سینئر ترین بندے کواس کا حق نہ ملے۔ یعنی جو جونیئرہیں اُن کو یہ توقع ہی نہیں کرنی چاہئے کہ وہ اس محکمے کے سربراہ بھی بن سکتے ہیں۔ یوں محکموں میں بے دلی پھیلتی ہے اورلوگ د ل لگا کر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لئے محکمانہ ترقیوں کو جاری رہنا چاہئے اور سربراہی تک جاری رہنا چاہئے۔