نیا سال اور امیدیں 

نئے سال سے نئی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں سال رفتہ کے آخری ہفتوں میں کچھ سیاسی چہ میگوئیاں ضرور ہونے لگی تھیں کہ جن سے کسی تبدیلی کی بازگشت پھیل گئی اگرچہ اس کی نوعیت اور کیفیت واضح نہیں مگر اپوزیشن کی شوخیاں کچھ کچھ اشارے دے رہی تھیں اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف دو سال سے زائد عرصہ سے لندن میں رہ رہے ہیں انہوں نے اپنے ویزے کی توسیع کیلئے برطانوی وزارت داخلہ کو درخواست بھی دے رکھی ہے جس کے حوالے سے حکومتی وزراء کا دعویٰ ہے کہ وہ درخواست مسترد ہوگئی ہے مگر برطانوی ذرائع اس کی تصدیق یا تردید نہیں کرتے دوسری طرف پاکستان سے چند شخصیات نے لندن میں نوازشریف سے ملاقاتیں کی ہیں ان کے تبصروں سے صورت حال کنفیوژن کا شکار ہوگئی پہلے تو ن لیگ کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نوازشریف سے ملے اور بیان دیا کہ جلد دھماکہ ہونے والا ہے پھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کی ملاقات ہوئی احسن بھون نے اسلام آباد آکر بیان دیا کہ سپریم کورٹ میں آئینی رٹ کرنے جارہے ہیں ان بیانات سے کنفیوژن تو پھیل گیا مگر بات واضح نہیں ہو رہی تھی لیکن اچانک وزیراعظم عمران خان نے بیان دے دیا کہ ایک سزا یافتہ نااہل سابق وزیراعظم کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں مذکورہ بالا حالات کے باوجود ابھی عمران خان کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کریں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کو ہٹانے کیلئے کوئی آئینی طریقہ کار کارگر نہیں ہو سکتا اپوزیشن جماعتیں عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے پر تیار نہیں تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی کی طرح متبادل بھی کوئی نہیں جس طرح آصف زرداری نے یوسف رضا گیلانی کے نااہل ہونے پر راجہ پرویز اشرف کو اور نوازشریف نے اپنی نااہلی پر شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنا دیا تھا تحریک انصاف میں ایسا کوئی متبادل نہیں نہ ہی پارٹی میں کسی کو قبول کرنے کا ماحول ہے اسلئے عمران خان کو تقریباً ڈیڑھ سال مزید مکمل کرنے سے کوئی رکاوٹ نہیں وہ اس عرصہ میں کیا بہتری لا سکتے ہیں اس حوالے سے امید بہرحال موجود ہے اگرچہ آئی ایم ایف سے معاہدوں کی وجہ سے مہنگائی بڑھے گی مگر عالمی اداروں کی امداد سے معاشی اشاریے بہتر بھی ہو رہے ہیں جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو اسی وقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی خود کو متبادل ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن ن لیگ میں نوازشریف کے بعد قیادت کا بحران واضح ہے شہبازشریف سب کے ساتھ چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر مریم نواز انکے آگے آنے کی راہ میں رکاوٹ ہے اگرچہ اب اپوزیشن بھی آئندہ الیکشنز کیلئے تیاریاں کر رہی ہے مگر کارکنوں کو متحرک رکھنے کیلئے بیان بازی جاری رکھی جارہی ہے اسکے باوجود2023 تک سب کو اپنی اپنی پوزیشن پر ہی گزارہ کرنا ہوگا ابھی اس سال کچھ بڑا دھماکہ نہیں ہونے والا۔ مہنگائی میں ضرور اضافہ ہوگا اگرچہ حکومت کچھ آئٹمز کی قیمتوں میں کمی بھی کرے گی بس دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ نیا سال ملک و قوم کیلئے اچھا ثابت ہو۔