سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

 مہ و سال گزرتے جارہے ہیں اور یوں ہی موسم بھی ایک دوسرے کے تعاقب میں چلتے جارہے ہیں اور ہمارے گرد وپیش کے مظاہر بدلتی رتوں کے ساتھ نت نئے نظاروں میں ڈھلتے نظر آتے ہیں اور ان بدلتی رتوں کے ہم اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ جب ذرا کسی موسم میں ٹھہراؤ آتا ہے تو یار لوگ زچ ہونے لگتے ہیں،بے کیفی اور بے چینی ہمارے دلوں سے اٹھ کر چہروں پر تناؤ پیدا کرنے لگتی ہے۔ اب کے بھی زمستان کی رت کو کتنے ہی دن ہو گئے ہیں، سردی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے لیکن بہت سے علاقوں میں اب تک کہیں ابر رحمت کا چھینٹا نہیں پڑا اور سیانے کہتے ہیں کہ جب تک سردی کو بارش کا تڑکا نہ لگے پھیکی پھیکی سی لگتی ہے اور اسے خشک سردی سے موسوم کیا جاتا ہے،عام طور پر موسم سرما کی پہلی بارش کے لئے لمبا انتظار نہیں کھینچنا پڑتا،دسمبر کے اوائل میں کہیں سے پانی سے بھری چھاگل اٹھائے بادل آہی جاتے ہیں جس سے موسم میں قدرے خنکی تو بڑھ جاتی ہے مگر چہرے کھل اٹھتے ہیں لیکن اب جب کہ دسمبر بھی اپنی باری بھر چکا اور جنوری کو چارج سونپ گیا لیکن کھل کے برسنے والی پہلی بارش نے پشاور کا رخ نہ کیا، بیچ میں ایک آدھ چھینٹا پڑا بھی تو جنگل میں ناچنے والے مور کی طرح کسی کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکا، گویا بقول غالب،”ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی“ نہ گھروں میں پکوان پکے نہ پہلی بارش کی مہربان دھند سے ٹھنڈے گیلے کھڑکیوں کے شیشوں پر یادوں کی شبیہیں ابھریں، پھاگن کی بارشوں کے آنے میں ابھی بہت وقت باقی ہے تب تک تو سرما کا موسم بھی واپسی کے لئے رخت سفر باندھنے لگے گا، پھاگن تو موسم سرما کی آخری آخری بارشوں کی نوید لے کر آتا ہے، کچھ دن پہلے تک تو پہاڑوں کے دامن بھی بارش اور برف باری سے عاری تھے، لیکن اب وہاں ہلکی برف باری شروع ہو چکی ہے اور سوشل میڈیا پر وہ من چلے اپنی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں جو پہلی پہلی برفباری کے استقبال کے لئے وہاں موجود تھے یا پہنچ گئے تھے، موسمی تبدیلیوں کی زد میں صرف ہمارا خطہ نہیں ہے عالمی سطح پر بھی موسم کے ٹائم ٹیبل میں بہت تبدیلیاں آ رہی ہیں، جس کی ایک مثال امریکہ کی سٹیٹ کولو راڈو بھی ہے جہاں کے موسم بہت بے اعتبار سمجھے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں اوائل اپریل میں بھی بارش کے ساتھ اچھی خاصی برف پڑ جاتی ہے لیکن اب کے دسمبر تک برف باری نہیں ہوئی دور پہاڑوں پر تو خوب برف پڑی نظر آتی ہے لیکن وادیاں ابھی تک برف باری کی راہ دیکھ رہی ہیں،سردی میں شدت تو ہے درجہ حرارت میں نقطہ ئ انجماد کے اطراف میں ہی رہتا ہے مگر منفی بتیس اور تیس والی کیفیت نہیں ہے اور اس سردی کی وجہ در اصل چالیس سے پچاس میل کی رفتار سے چلنے والی برفانی ہوائیں ہیں، جو تیکھے چہروں کو روکھا بنا رہی ہیں، موسم جب مہرباں نہ ہو توصرف چہرے ہی خشک نہیں ہوتے طبیعت بھی اداس،بوجھل اور اکتاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے اور اگر یہ کیفیت زیادہ د نوں تک رہے تو منیر نیازی کی طرح شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی 
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا 
شعراء کو تو خیر یہ سہولت بھی حاصل ہوتی ہے کہ وہ جب چاہیں آنکھیں بند کر کے خود کو اپنے بنائے ہوئے ”یوٹوپیا“ میں منتقل کر دیں گویا وہ بیک وقت دو دو شہروں میں رہتے ہیں، عرفان صدیقی نے بھی یہی کہا ہے کہ 
 دو جگہ رہتے ہیں ہم ایک تو یہ شہر ملال 
 ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسا یا ہوا ہے 
لیکن باقی دنیا کی آنکھیں تو موسموں کی طرف ہی لگی رہتی ہیں اور ان کے ٹائم ٹیبل میں ذرا بدلاؤ آتا ہے تو یار لوگوں کے چہروں پر کشیدگی بڑھنے لگتی ہے اور گفتگو میں موسم کے حوالے سے لہجے میں ایک شکایت سی پیدا ہونے لگتی ہے، موسم کے ساتھ خود کو چلانے کی کبھی کوشش ہی کی جاتی، موسم میں اتار چڑھاؤ تو ایک فطری امر ہے، کبھی دن بڑے اور کبھی کی راتیں کا حوالہ تو ہمیں یاد رہتا ہے اور ماہرین شروع ہی سے اس کے بارے میں بتا چکے ہیں، یہ حساب کتاب اپنی جگہ بہت درست ہے اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، دن اور مہینہ کا تعین بھی ہو چکا ہے کہ کب دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہونا شروع ہوتی ہیں اور کب اس کے برعکس سلسلہ شروع ہو تا ہے اس کا علم تو سب کو ہے مگر یہ فارمولا بھی پوری دنیا کے لئے نہیں ہے اس گلوب پر وہ ممالک اور خطے بھی مو جود ہیں جہاں سورج رات گئے تک چمکتا رہتاہے اور یار لوگ رات کے کھانے کے بعد سورج کی روشنی میں چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں اور ایسے علاقے بھی مو جود ہیں جہاں دن کا دورانیہ اکیس اور بائیس گھنٹے کا ہو تا ہے اور سویڈن،ناروے اور فن لینڈ سمیت ایسے ممالک بھی موجود ہیں جہا ں سورج غروب ہوتے ہی طلوع ہو جاتا ہے اور ان علاقوں کے باسی اپنے موسموں کے ساتھ ہی گزر و بسر کرتے ہیں، اس لئے اگر کچھ علاقوں میں سرما کی پہلی بارش دیر سے ہو تی ہے یا پہاڑوں پر برف باری تاخیر کا شکار ہو جاتی تو ایسے علاقے بھی ہیں جہا سرما کے موسم میں لوگ سورج کی شکل دیکھنے کو بھی ترس جاتے ہیں ایسے ہی موسم میں جب فارغ بخاری پہلی بار لندن گئے تھے تو انہیں کہنا پڑا تھا 
 سورج جب سرما کی تعطیلات منانے جاتا ہے
اگر چہ بن سورج کے دھند سے بھرے دنوں میں شام کا سا منظر چھایا رہتا اس لئے انہیں سورج کی روشنی کا انتظار بھی تھا مگر دل میں ایک خدشہ بھی سانس لے رہا تھا جس کا اظہار انہوں نے یوں بھی کیا ہے۔
یہ تیر گی تو بہر حال چھٹ بہی جائے گی 
 نہ راس آئی ہمیں روشنی تو کیا ہو گا
بہر حال موسم ایک دوسرے کے تعاقب میں چلتے جارہے ہیں اور ہمارے گرد وپیش کے مظاہر بدلتی رتوں کے ساتھ نت نئے نظاروں میں ڈھلتے نظر آتے ہیں لیکن ان میں جب ٹھہراؤ آ جاتا ہے تو یار لوگ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں اور بدلتی رتوں کے ساتھ خود کو بدلنے کی یا سمجھوتا کرنے کی سعی نہیں کرتے،بیدلؔ حیدری یاد آگئے۔
 گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
 سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا