پاکستان کے افغانستان کے تعلقات اور بھائی چارے کی کیفیت بھی بڑی عجیب ہے، ہمسایہ ممالک کے درمیان وقت کے ساتھ اختلافات بھی پیدا ہوتے ہیں اور تنازعات بھی، تاہم ان ہر آزمائش کی گھڑی میں پاکستان ہی ہے جو افغانوں کیلئے دوسرا گھر اور روزگار کا ذریعہ بنا، عام افغان شہری تجارت سے لے کر مزدوری کیلئے پاکستان آتے، آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔پاکستان نے ہمیشہ ہی افغانوں کو غیر ملکی افواج سے تحفظ اور اقتصادی امداد سے سہارا دینے کی کوشش کی،مگر باجود اس کے افغانستان میں ہمیشہ سے پاکستان کیلئے مسئلے کھڑے کرنے والے موجود رہے۔2 ہفتے پہلے کچھ عناصر نے ننگرہار صوبے کے ساتھ سرحدی علاقے میں باڑ کی تنصیب میں رکاوٹ ڈالی، اگرچہ پاکستان نے دانشمندی اور اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کو زیادہ نہیں اچھالا‘ لیکن یہ واضح اشتعال انگیزی تھی۔ اس وقت افغانستان جس معاشی بحران کا شکار ہے اور عام شہری جن مشکلات میں گھرے ہیں، پاکستان واحد ملک ہے جس نے اسلامی سربراہ کانفرنس اور اس میں بڑی اقتصادی طاقتوں کے نمائندے بلا کر افغانستان میں معاشی بحران اور کسی ممکنہ انسانی المیہ سے دنیا کو خبردار کیا، پاکستان کی سفارتکاری سے نہ صرف اسلامی ممالک ایک فنڈز قائم کرنے پر آمادہ ہوئے بلکہ یو این او سلامتی کونسل میں تحریک بھی منظور ہوئی اور امریکہ نے بھی پابندیاں نرم کر کے افغانستان کو امداد دینے کا راستہ کھولا ہے، پاکستان نے اپنی کمزور معاشی پوزیشن کے باوجود افغانوں کو بھوک اور بیماریوں سے بچانے کیلئے گندم اور دیگر غذائی اجناس اور ادویات افغانستان بھیجنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ روزانہ بیسیوں ٹرک یہ سامان لے کر افغانستان جا رہے ہیں‘سرحد پر باڑ کے باوجود بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں آمدورفت کے قانونی راستے کھلے ہیں جہاں سے تجارت علاج اور مزدوری کیلئے ہزاروں افغانی روزانہ داخل ہوتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی مشاورت اور اتفاق رائے سے مزید انٹری پوائنٹس بھی کھولے جا سکتے ہیں لیکن اس کیلئے طالبان کو سنجیدہ رویہ اور پاکستان کی طرف سے خیرسگالی کا مثبت انداز میں جواب دینا چاہئے۔امریکہ جس نے افغانستان میں طویل عرصہ گزارا یقینا اس نے یہاں پر ایک ایسے نٹ ورک کی موجودگی کو بھی یقینی بنایا ہوگا جو پاکستان اور افغانستان کو قریب آنے سے روکے۔ کیونکہ امریکہ کا مفاد ہی ممالک کے درمیان اختلافات میں ہے اور خاص کر پاکستان کے حوالے سے اس کا رویہ مخاصمانہ ہی رہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ کہ جب چین اور روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کشیدگی کی آخری حدوں کوچھورہے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان میں چین کے پروان چڑھنے والے ترقیاتی منصوبے امریکہ کو ایک آنکھ بھائیں، اس لئے تو ا سکی کوشش ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں ختم نہ ہوں تاکہ سی پیک کو افغانستان اور پھر اس کے ذریعے وسطی ایشیاء تک توسیع نہ ملے‘اسلئے تو اس نے افغانستان میں خفیہ طور پر یقینا ایسے لوگوں کو منظم کیا ہوگاجو پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے درپے ہیں‘طالبان قیادت کو ایسے اقدامات کا نوٹس لینا چاہیے اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے وعدہ پر عمل کرنا چاہیے۔پاکستان کی خواہش ہے کہ افغانستان ایک مستحکم ریاست بنے، وہاں بھوک و افلاس ختم ہو اور پاکستان کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات قائم ہوں لیکن صرف پاکستان کے ایسا سوچنے سے حالات درست نہیں ہوسکتے، افغانستان اور طالبان کو بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔امید رکھنی چاہئے کہ نئے سال میں طالبان زیادہ سنجیدگی اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کیساتھ برادرانہ تعلقات کو تقویت دینگے اور ان عناصر کی سرکوبی کرینگے جو ان تعلقات کو خراب کرنے کا باعث ہیں۔