زندگی کی گاڑی کا پہیہ چل رہا ہے اور متواتر چل رہا ہے۔ دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے جارہے ہیں۔ ادھر ہم کہتے ہیں کہ زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہو گیا ہے۔ جو شخص کل تک انیس سال کا تھا وہ بیس سال کا ہوگیا ہے اور جو بیس سال کا تھا وہ اکیس سال کا ہو گیا ہے مگر دوسری جانب سے اس طرح ہے کہ جوبھی ذی روح اس دنیا میں آتا ہے وہ ایک خاص عمر لے کر پیدا ہوتا ہے قدرت نے اُ سے ایک مخصوص وقت کے لئے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اگر اُسے پچاس سال کی عمر عنایت کی گئی ہے تو اس کی عمر میں ایک سال کی کمی ہو گئی ہے۔ لیکن دوسری طرف سے اگر وہ بیس سال کا تھا تو ا وہ اکیس سال کو ہو گیا ہے۔ یعنی ایک طرف سے دیکھا جائے تو اس کی عمر میں اضافہ ہو ا ہے مگر دوسری جانب سے اُس کی عمر میں ایک سال کی کمی ہو گئی ہے۔ اس طرفہ تماشے میں ہم جی رہے ہیں اور اس طرح گنتے گنتے ہم وہ عمر پوری کر لیتے ہیں کہ جتنے عرصے کے لئے ہمیں یہ زندگی ملی تھی اور اس کے بعد اس دنیا سے روپوشی ہو جاتی ہے۔ اور ہم مسلمان ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعدبھی ایک زندگی ہے۔ جہاں تک مرنے کے بعد کا تعلق ہے تو وہاں ہمیں اپنے جیون کا حسا ب کتا ب دینا ہے اور اگر ہم کامیا ب رہے تو ابدی کامیابی ہے اور اگر ناکام رہے تو بھی ہمیشہ کی ناکامی۔ سال گزر رہے ہیں آج ایک نئے سال میں ہم قدم رکھ چکے ہیں۔ سالوں کا ایک لحا ظ سے ہماری زندگی پربھی اثر پڑتا ہے اور ہمارے ملکی حالات پر بھی اثر پڑتا ہے۔ سال گزرنا ایک بات ہے اور کامیابی و ناکامی کاحصول دوسری بات ہے، نئے سال کو اس خیال سے خوش آمدید کہنا ہے کہ اس میں سابقہ غلطیوں سے بچاؤ اور کامیابیاں سمیٹنے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ اس طرح دوسروں کی مدد کرنا بھی ایک ہدف ہونا چاہئے کہ سال گزرے تو آخر میں ہم یہ دیکھیں کہ ہم نے کس وقت کس کی مدد کی اور دوسروں کی مشکلات کو کم کرنے میں کہاں تک کامیاب رہے۔کیونکہ اصل زندگی تو ہی ہے جو دوسروں کے کام آسکے اور اپنے ساتھ رہنے والوں یعنی رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کیلئے ہم سہولت اور آسانی فراہم کرنے کا باعث ہوں نہ کہ تنگی یا تکلیف کا۔