2020 ء اور 2021ء کورونا کے ساتھ خوف کی فضا ء میں گزرے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مہلک وبا ء نے دنیا میں بہت تباہی مچائی، پاکستان کی آبادی اور صحت کی سہولیات کے فقدان سے حالات عوام کے لئے سازگار نہیں تھے، لیکن اس کو اللہ کا فضل و کرم ہی کہا جا سکتا ہے کہ اندازوں سے بہت کم ہلاکتیں ہوئیں اور حکومت نے ایک طرف لاک ڈاؤن جیسے اقدام کو نرم رکھا، جس سے عام زندگی پر منفی اثرات نہیں پڑے اور نہ ہی بے روزگاری بڑھی، تو دوسری طرف بروقت اور منظم انداز میں ویکسینیشن شروع کر دی، یہ بات قابل ستائش ہے کہ کئی یورپی ممالک سے بہتر انداز میں ویکسینیشن کی گئی اور اس کے اعداد و شمار بھی قابل اعتبار ڈیٹا تسلیم کئے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج بھی کورونا مریضوں کی تعداد اور ان کے حالات سے درست آگاہی ممکن ہے۔ اس وسیع وبا ء کی تشخیص پہلا ضروری عمل تھا جس کے لئے قومی ادارہ صحت نے بہت کام کیا اور دن رات لیبارٹری کھول کر مریضوں میں کورونا کی تشخیص کو جاری رکھا، اس کے بعد حکومت نے خصوصی ہسپتال اور قرنطینہ مراکز بنا کر مثبت رپورٹ والوں کو عام شہریوں سے الگ رکھنے کی کوشش کی، اگرچہ 2020 ء میں تعلیمی اداروں اور زیادہ رش والے تجارتی مراکز کو بند کیا گیا، لیکن 2021ء میں بتدریج پابندی نرم کی گئی، اس کے باوجود سال گزشتہ میں دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص کورونا کے مریضوں کی تعداد بہت کم ہوگئی اور پاکستان میں مثبت کیسوں کی شرح ایک فیصد سے بھی کم سطح پر آ گئی، اس سے وہ خوف ختم ہو گیا جو اس وبا ء کے ساتھ آیا تھا، مگر 2021 ء ختم ہونے سے پہلے یورپ میں کورونا کی ایک نئی قسم اومی کرون دریافت ہو گئی، اگرچہ اومی کرون، کورونا سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا وائرس ہے، لیکن ہلاکت خیزی میں یہ کم خطرناک ہے، اس لئے امریکہ میں روزانہ دس لاکھ افراد اومی کرون سے متاثر ہونے کے باوجود خوف نہیں پھیلا اور نہ ہی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ چند یورپی ممالک میں اس کی وجہ سے کرسمس اور سال نو کی تقریبات پر پابندی لگائی گئی مگر عوام نے پابندیوں پر زیادہ عمل نہیں کیا اور بے خوف ہوکر تقریبات میں شریک ہوئے۔ اب 2022 ء میں اومی کرون ایک وبائی بیماری کے طور پر موجود تو ہے لیکن اس سے معمولات پر کوئی فرق نہیں، پاکستان میں اس نئے ویرینٹ کی وجہ سے کورونا ویکسین کی دو ڈوز لگوانے والوں کو بوسٹر کی تیسری ڈوز بھی لگانی شروع کر دی ہے اور تیس سال سے اوپر کی عمر کے شہریوں کو بوسٹر ڈوز لگائی جا رہی ہے، اگرچہ بوسٹر کے لئے عوام میں اتنی آگاہی نہیں دی گئی اور اس کی رفتار بھی ابتدائی ویکسینیشن سے کم ہے، لیکن اب عوام میں احساس تحفظ آگیا ہے، بوسٹر ڈوز کے لئے اس سطح کا انتظام بھی نہیں کیا گیا جیسا ابتدائی ویکسینیشن کے لئے کیا گیا تھا، مگر اس سے حکومت بھی شاید مطمئن ہے کہ اومی کرون زیادہ خطرناک نہیں، ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ کورونا کی نئی شکل زیادہ مہلک نہیں ورنہ بچاؤ کے لئے ہماری کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں۔