مشترکہ ذمہ داری

مری میں برف باری کو دیکھنے اور تفریح کیلئے جانیوالے خاندانوں کی بے بسی میں افسوسناک اموات نے ملک بھر میں سوگ کی کیفیت پیدا کر دی‘بہرحال ابھی اس پر بحث مباحثہ چل رہا ہے کہ یہ حادثہ تھا کہ سانحہ، ان حالات کا بھر پور تجزیہ کیا جائے تو اجتماعی طور پر بد انتظامی کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرتی رویے بھی قیمتی جانوں کے ضیاع کا باعث بنے۔ ہمارا ہر معاملے میں غیر محتاط رویہ تو اب ضرب المثل ہے۔ برف دیکھنے اور بچوں کو دکھانے کے شوق میں مری جانے والوں نے بھی کوئی احتیاط نہیں کی اور نہ موسم کو دیکھا حالانکہ محکمہ موسمیات نے بھی شدید برفباری اور سڑکوں کی ممکنہ بندش کی پیش گوئی کر دی تھی اور میڈیا کے ذریعے بھی اطلاعات مل رہی تھیں دوسری طرف حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی غلطی یہ ہے  کہ ایک حد سے زیادہ گاڑیوں کو جانے سے روکا نہیں اگر حکومت روکتی تو نقصان سے یا کم از کم اتنے وسیع جانی نقصان سے بچا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ فوج کو ایک دن پہلے ہی طلب کیا جاتا اور سڑکوں سے برف ہٹائی جاتی تو شاید پھر بھی بہت سی جانیں بچ جاتیں۔اب پنجاب حکومت نے 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو سات دنوں میں رپورٹ دے گی اور ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔مگر چیف سیکرٹری پنجاب نے اپنی ایک ٹویٹ میں مری کے اسسٹنٹ کمشنر کو ایمرجنسی میں اچھی کارکردگی پر شاباشی دے دی ہے، حالانکہ سڑکوں سے برف ہٹوانا اور راستے صاف کروانا بنیادی طور پر اے سی مری کی ذمہ داری تھی جس میں وہ ناکام رہے۔ دوسری طرف اس بار مری کے لوگوں کے رویئے کے حوالے سے بڑی پریشان کن خبریں آئی ہیں۔ایک عام سے ہوٹل کے کمرے کا پچاس ہزار تک  طلب کرنا اور ایک اُبلا ہوا انڈا 500 رویئے کا دینا بھی دراصل مقامی انتظامیہ کی نااہلی میں شمار ہوتا ہے۔ اگر چھوٹی سی  تحصیل میں جو سیاحت کا مرکز ہے کرایوں اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں پر نظر نہیں رکھی جا سکتی تو پھر  ایسا واقعہ پیش آنا بعید نہیں۔مری میں موسم گرما میں بھی دکاندار و ہوٹل مالکان کے رویے کی کافی  شکایات موجود تھیں اور اسی وجہ سے چند سال پہلے مری کا بڑا منظم بائیکاٹ کیا گیا تھا۔اب سردیوں میں بے حسی کے جو واقعات سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مری کے لوگ دل کے  بجائے جیب بڑی رکھتے ہیں، اس طرح تو آئندہ کوئی مری کا رخ نہیں کرے گا۔پنجاب حکومت نے سانحے کے بعد حرکت شروع کر دی،  اسلام آباد پولیس نے شٹل سروس شروع کرکے سیاحوں کو نکالنے میں مدد دی۔سب سے زیادہ کام حسب سابق  فوج کے جوانوں نے کیا جنہوں نے رات دن ایک کر کے نہ صرف سڑکیں برف سے صاف کیں بلکہ برف میں پھنسی گاڑیوں کو بھی نکالا۔اس کے ساتھ کئی غیر سرکاری فلاحی تنظیموں نے بھی بہت نمایاں کام کیا۔ بالخصوص جماعت اسلامی کی الخدمت فانڈیشن اور منہاج ویلفیئر فانڈیشن کے رضاکاروں نے سخت موسم کے باوجود نہ صرف لوگوں کو گاڑیوں سے نکالا بلکہ ان کو رہائش اور کھانا بھی دیا اگر کچھ واقعات حرص و ہوس کے ہوئے تو انسانیت کے مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے۔ ایسے میں کچھ سیاستدانوں کی طرف سے اس واقعے پر بھی سیاست کرنا اچھا نہیں لگا۔ابھی جن گھرانوں پر یہ قیامت گزری ہے یہ وہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس سانحے پر سیاست بازی ان کے دُکھ میں اضافے کا موجب بن رہی ہے۔اگرچہ پنجاب حکومت نے سوگوار خاندانوں کیلئے مالی امداد کا اعلان کیا ہے مگر یہ بہت کم ہے، وفاقی حکومت کو بھی امداد کا اعلان کرنا چاہئے۔