انسانی جانوں کا ضیاع

مری پاکستان کا وہ سیاحتی مقام ہے کہ جہاں پر گرمیوں اور سردیوں دونوں میں سیاح سیر کو نکل پڑتے ہیں۔یہاں کی سردیاں بھی لطف اندوز ہوتی ہیں اورگرمیوں کی تو کیا بات ہے۔ہر سال کی طرح ا س دفعہ بھی لوگ سردیاں انجوائے کرنے مری کونکل پڑے۔ مری ایک بات یہ ہے کہ یہ اتنی زیادہ گنجائش والا علاقہ نہیں ہے کہ جہاں ایک حد سے زیادہ سیاحوں کی دیکھ بھال ہو سکے۔ گرمیوں میں تو خیر کسی طرح بھی گزارہ ہو ہی جاتا ہے کہ سیاح کسی بھی جگہ اپنے ڈیرے جما سکتے ہیں اور ایک آدھ کمبل میں گزارہ ہو جاتا ہے،مگر سردیوں میں البتہ بہت زیادہ احتیا ط کی ضرور ت ہے۔ یہاں اگر ایک حد سے زیادہ سیاح سردیوں میں امڈ پڑیں تو مری ان کو سنبھال نہیں سکتا۔ ہوٹل بھی اتنے زیادہ نہیں ہیں کہ ان میں بہت زیادہ سیاح سما سکیں اور مکانات کی بھی کمی ہے اس لئے کہ یہ علاقہ ہی ایسا ہے کہ یہاں ایک خاص حد تک ہی لوگ سما سکتے ہیں۔ دوسرے انگریز کے وقت سے اس علاقے میں ایک خاص حد سے زیادہ مکانات کی اجازت نہیں ہے اس لئے کہ یہاں سلائڈنگ بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس پہاڑ پر آبادی کی حد کو بڑھنے نہیں دیا جاتا۔ مگر چونکہ یہ پاکستان کا ایک سیاحتی مقام ہے اور یہاں گرمیوں میں تو بہت زیادہ رش ہو جاتا ہے مگر سردیوں میں بھی لوگوں نے اس کی سیاحت کو لازم کر لیا ہے۔ پہلے تو یہاں سردی اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ یہاں کے مقامی لوگ بھی کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح گرم مقامات کی طرف نکل جائیں مگر اب بجلی اور گیس کی سہولیات نے یہاں کی سردی کو بھی خوشگوار بنا دیا ہے اور اب لوگ سردیوں میں بھی ملکہ کوہسار کی سیر کو نکل پڑتے ہیں۔ مگر جہاں تک گنجائش کا تعلق ہے تو وہ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک تو یہ ایسا پہاڑ ہے کہ جہاں آبادی کا ایک خاص حد سے زیادہ ہونا خطرناک ہے اس لئے کہ ان پہاڑیوں میں لینڈ سلائیڈنگ بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے انگریز کے دور سے یہاں ایک خاص حد سے زیادہ مکانات کی اجازت نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ا ب ہو گئی ہو مگر پہاڑ کی سلائڈنگ تو اپنی جگہ ہے۔ اس لئے یہ پہاڑ ایک حد سے زیادہ آبادی کا بوجھ نہیں سہار سکتے۔ جب بھی ان پر ایک حد سے زیادہ مکانات بنیں گے تو یہ پہاڑ پھسل جائیں گے اور یوں جانی اورمالی نقصانات کا ڈر رہتا ہے۔ اس لئے اس کی آبادی کو ایک خاص حد سے بڑھنے نہیں دیا جاتا۔ اب کی صورت حال یہ ہے کہ کیونکہ پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہو گئی ہے اور لوگ بھی خوشحال ہیں اس لئے یہ سردویوں اور گرمیوں دونوں میں سیر کو نکل پڑتے ہیں اور مری کو جو مقام گرمیوں میں حاصل تھا وہ ان سردیوں میں بھی حاصل ہو گیا ہے اور سیاح سردیوں میں بھی ملکہ کوہسار کی سیر کو اُمڈ پڑتے ہیں۔ اسلام آباد چونکہ ہمارا دارالخلافہ ہے اور یہ مری کی پہاڑیوں کی گود میں ہے اس لئے مری سردیوں اور گرمیوں دونوں میں عوام کے لئے دلکش مقام کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ مگر اس میں احتیا ط کی بات کریں تو وہ تو وہی ہے کہ آپ ایک خاص حد تک ہی جا سکتے ہیں۔ اور یہاں کی مقامی آبادی سردیوں میں یہاں سے ہجرت کو زیادہ ترجیح دیتی ہے۔ کیوں کہ یہ علاقہ زیادہ آبادی کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ مگر لوگوں کو تو اپنی جیب ہلکی کرنے کا شوق ہے اس لئے انہوں نے مری کو سردیوں کابھی سیاحتی مقام بنا دیا ہے۔ مگر سردی تو سرد ی ہے یہ تو کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔ چنانچہ اس دفعہ جو لوگ سردیاں انجوائے کرنے آئے ان کے ساتھ مری نے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا اور بہت سے لوگ اس دوران جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ وجہ یہی ہے کہ لوگوں نے سردیوں کو بھی اُسی طرح لیا ہے کہ جیسے وہ گرمیاں انجوائے کرنے آتے تھے۔ مگر مری کی سردی تو کسی سے رو رعایت نہیں کرتی سوبہت سے لوگ اس دفعہ جان سے بھی گئے۔ اور چونکہ موسم بھی اچانک ہی سخت ہو گیا جو لوگوں کی سوچ سے باہر تھا اس لئے بھی بہت سا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اور حکومت نے بھی کچھ دھیان نہیں دیا کہ موسم سخت ہو گیا تھا تو لوگوں مری جانے ہی نہیں دیناچاہئے تھا مگر لوگ بھی تو حکومت کی ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور یہ رویہ مستقل طور پر ہر حوالے سے اپنایا گیا ہے اس کا مشاہدہ کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے کے ضمن میں بخوبی ہو سکتا ہے کہ حکومت نے عوام کی اپنی حفاظت کے لئے ایس او پیز متعارف کرائے تاہم لوگ دانستہ طور پر عملدرآمد کرنے سے کتراتے رہے جس کا نتیجہ بہت سی قیمتی جانوں کے ضیاع کی صورت میں سامنے آیا۔