یہ مسئلہ تو تقریباً ہر شہر میں ہی ہے کہ ہر شخص اپنے ہی گھر کے سامنے سے بس میں سوار ہونا چاہتا ہے۔ اسی وجہ سے شہروں میں یہ مسئلہ بنا ہو ا ہے کہ جو اڈے گاڑیوں کیلئے مخصوص ہیں وہاں تو بسیں اورٹیکسیاں کھڑی رہتی ہیں مگر بہت کم لوگ ان میں ان ا ڈوں سے سوار ہوتے ہیں مگر جونہی بس اپنے اڈے سے باہر نکلتی ہے سامنے لوگ آنے شروع ہو جاتے ہیں اورہر شخص بس کو روکتا دکھائی دیتا ہے او ربس میں چونکہ سواریوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے بس والے بھی جگہ جگہ سے سواریاں اٹھانے میں لگے رہتے ہیں جس سے ٹریفک کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اگر ٹریفک پولیس سے بات کی جائے تو اُن کی طرف سے تو یہی جوا ب آتا ہے کہ جناب ہمارا کام ہے ان کو روکنا اور چالان کرنا۔ سو ہم تو ایسی گاڑیوں کے چالان کرتے رہتے ہیں کہ جو اپنے اڈے کے باہرسے سواریاں ا ٹھارہی ہوتی ہیں مگر اس سے کام نہیں بن رہا۔ اس لئے کہ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ہربس اُن کو ان کے گھر سے اٹھائے۔ کمیٹی نے یا شہر کے کرتا دھرتا افسروں نے تو بسوں کیلئے اڈے مخصوص کر رکھے ہیں کہ وہاں سے ہی سواریاں ٹھائیں اور وہیں پہ سواریاں اتاریں مگر صور ت حال یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اڈے پر جا کربسوں میں سوار ہونے کی زحمت اٹھانے کو تیار ہی نہیں ہے اور بسوں والے بھی خالی بسیں تو لے جا نہیں سکتے اس لئے ان کی بھی مجبوری ہے کہ وہ سواریوں کو راستے میں جہاں ملیں ان کو اٹھائیں۔ ا س کوشش میں بسوں کے چالان بھی ہوتے ہیں مگر نہ سواریاں با ز آ تی ہیں اور نہ بسوں والے باز آتے ہیں۔ بس والوں کی تویہ مجبوری ہے کہ وہ خالی بس لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں جا سکتے اس لئے ان کو جہاں سے بھی سواری ملے وہ اٹھائیں گے۔ مگر جہاں تک شہروں کا تعلق ہے تو کیونکہ ان میں سواریاں ٹھانے کے لئے مخصوص جگہیں حکومت نے بنا رکھی ہیں اس لئے ان کو صرف وہیں سے سواریاں اٹھانی چاہیئں۔ اگربسوں والے قوانین پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ شہر کے اندر سے سواریاں صرف اڈے سے ہیں بیٹھیں گی۔ مگر چونکہ بسوں والے ہر جگہ سے سواری اٹھانا ضروری سمجھتے ہیں اس لئے ان کی مجبوری سے سواریاں بھی فائدہ اٹھاتی ہیں اس وجہ سے شہروں میں ہر جگہ بسوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں اور اس سے جو مسائل ٹریفک کے سر اٹھا رہے ہیں اس سے بسوں والے بھی واقف ہیں اور عوام بھی لا علم نہیں ہیں مگر کوئی بھی ٹریفک کے اصولوں پر عمل کرنا نہیں چاہتا۔ بات معمولی سی ہے۔ کیا ہوا کہ جو آپ کوبس والوں نے آپ کے گھر سے اٹھا لیا۔مگر اس میں قباحت یہ ہے کہ جب ہرانسان یہی چاہے گا کہ اُس کو بسیں اُس کے گھر سے ہی اٹھائیں تو جو مسائل ٹریفک کے بنیں گے اس سے کون واقف نہیں ہے۔ اگر ہر دوسرے قدم پربس کو رکنا پڑے گا تو ایک تو ٹریفک کے مسائل جنم لیں گے دوسرے جو مسافر بس میں بیٹھے ہیں وہ کوئی سیر کو تو نکلے نہیں۔ ہر ایک کسی نہ کسی کام سے نکلتا ہے۔ کسی کو اپنی نوکری پر بر وقت پہنچنا ہے، کسی طالب علم کوو قت پر اپنے سکول کالج میں پہنچنا ہے اسلئے اگربسیں سواریاں لینے کیلئے رکتی رہیں گی توظاہر ہے کہ ایک سٹوڈنٹ بر وقت اپنی کلاس میں نہیں پہنچ پائے گا، ایک مزدور اپنی نوکری کی جگہ بر وقت نہیں پہنچ پائے گا۔ اس سے کتنا نقصان ہو گا اس کا خیال کرنا چاہئے۔ ہم معاشرے کے فرد ہیں اور ہمیں معاشرے کے افراد کی تکالیف کا احساس ہونا چاہئے۔ اسی سے معاشرے بنتے بگڑتے ہیں۔