پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، 80 فیصدآبادی بالواسطہ یا براہ راست اس سے منسلک ہے، 1960 کی دہائی میں حکومت نے چند ایسی پالیسیاں منظور کیں جن سے صنعتوں کے قیام کی راہ ہموار ہوئی، بالخصوص زراعت کی بنیاد پر صنعتیں وجود میں آئیں، ان میں سرفہرست ٹیکسٹائل اور شوگر انڈسٹری ہے، ہماری برآمدات میں بھی یہی سرفہرست ہیں، 1970 کی دہائی میں بڑی صنعتوں کو قومیانے اور مزدوروں کی یونین سازی نے صنعتوں کو تباہ کر دیا اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی صنعت کی طرف توجہ نہیں دی، زراعت کو بھی فراموش کر دیا اور 1990 سے ہم نے گندم بھی درآمد کرنا شروع کر دی، زراعت کے زوال میں فصلوں کو بروقت بیج اور کھادیں نہ ملنا اور فصلوں کی بیماریوں اور کیڑے مار ادویات کی کم یابی بھی اہم وجوہات ہیں، دوسری طرف اعلی سطح پر منصوبہ بندی کے فقدان سے شہروں کے نواح میں زرخیز زرعی زمینوں پر آبادیاں شروع ہوگئی ہیں اس کے بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتیہیں اور ہماری اہم فصلیں دینے والی زمین، لوہے اور کنکریٹ کے جنگل سے بھر گئی، ہماری کپاس کی فصل تو ختم ہی ہوگئی، اس کے باعث ٹیکسٹائل انڈسٹری باہر سے دھاگہ یا فائبر یارن منگوانے پر مجبور ہوگئی، کہاں وہ وقت تھا کہ ہم کپاس، دھاگا اور کپڑا برآمد کرتے تھے اور کہاں یہ کہ دھاگہ درآمد کرنے لگے، اسی طرح گندم کی پیداوار ضرورت سے کم ہونے لگی، یہ المیہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم بھی درآمد کرتے ہیں۔ اس سال کے لیے حکومت نے گندم کی پیداوار کا ہدف گزشتہ سال سے 25 لاکھ ٹن بڑھا کر 3 کروڑ ٹن کر دیا تھا، لیکن فصل ربیع بالخصوص گندم کی بوائی کے وقت یوریا کھاد ناپید ہوگئی، اگرچہ حکومت کا دعوی ہے کہ یوریا کھاد ضرورت کے مطابق وافر مقدار میں پیدا ہو رہی ہے، حکومت نے گیس کم ہونے کے باوجود کھاد کی فیکٹریوں کو گیس کی فراہمی جاری رکھی، لیکن عالمی قیمتوں سے سستی ہونے کی وجہ سے زیادہ کھاد ہمسایہ ممالک کو سمگل کر دی گئی، اس دھندے میں فیکٹری مالکان کے علاوہ ڈیلر اور مڈل مین بھی ملوث ہیں لیکن حکومت کسانوں کو یہ یقین دلاتی رہی کہ کھاد وافر مقدار میں تیار ہو رہی ہے، کوئی کمی نہیں، جب کہ کسان بازاروں میں خوار ہوتے رہے اور کھاد بلیک میں بھی دستیاب نہ ہوئی۔ اسی افراتفری میں گندم کی بوائی اور پہلی کھاد دینے کا موسم گزر گیا، اب اقتصادی رابطہ کمیٹی نے چین سے 50 ہزار ٹن یوریا کھاد درآمد کرنے کی منظوری دی ہے، لیکن یہ اب گندم کی فصل میں کام نہیں آ سکے گی، کسان کو ضرورت کے وقت کھاد نہیں ملی تو اب مل بھی جائے تو کیا فائدہ، اس کا نتیجہ اب چند ماہ بعد گندم کی پیداوار میں کمی کی صورت میں سامنے آئے گا، جب گندم نایاب اور آٹا مہنگا ہوگا، پھر کروڑوں ڈالر زرمبادلہ خرچ کرکے گندم درآمد کی جائے گی،حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں بھر پور منصوبہ بندی کا فقدان رہا ہے، چاہے چینی بحران،ہو یا پھر آٹے اور کھاد کا بحران، ہر مسئلے کی بروقت منصوبہ بندی کرکے توڑ کیا جاسکتا ہے۔اب اگر یوریا کے حوالے سے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں تو پھر کل آٹے اور گندم کی فراہمی کیسے یقینی بنائے گی، اس کیلئے ابھی سے انتظامی تیاریاں شروع کر دینی چاہئے،اس ضمن میں صوبوں کو ضرورت کے مطابق گندم ذخیرہ کرنے کی ہدایت کی جا سکتی ہے۔ اگر ملکی پیداوار کو سمگل ہونے سے ہی بچا لیا جائے تو پھر بھی ہمیں بڑے بحران سے بچایا جاسکتا ہے، افغانستان میں تو بہر صورت گندم جاتی ہی ہے اس کی روک تھام کی جائے تو بحران سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ بروقت فیصلوں کے فقدان سے ہی بحران پیدا ہوتے ہیں۔اب بھی اگر مربوط اور منظم پلاننگ کی جائے تو گندم کے آنے والے بحران کو ٹالا جا سکتا ہے۔