سول ڈیفنس یا شہری دفاع ضلعی انتظامیہ کا ایک لازمی شعبہ ہے، جو خاص اہمیت رکھتا ہے، پہلی بار دوسری جنگ عظیم کے دوران جب شہروں پر ہوائی حملے شروع ہوئے تو سول ڈیفنس کے ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی، اس کی ذمہ داری ہوائی حملے کی پیشگی اطلاع سائرن دینے اور حملے کے بعد بمباری کی جگہ سے زخمیوں کو نکالنا اور املاک کو ممکن حد تک بچانا شامل تھا، اس کے بعد یہ محکمہ شہری انتظامیہ کا لازمی حصہ بن گیا۔ ہمارے ہاں اس شعبے کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند سال پہلے اسلام آباد کے اہم ترین کاروباری مرکز بلیو ایریا میں کثیر منزلہ سرکاری عمارت کی 17 ویں منزل میں آگ لگ گئی، مگر فائر بریگیڈ کے پاس اتنی بلندی پر آگ بجھانے کا کوئی انتظام یا مشینری نہیں تھی اور وہ عمارت مکمل جل گئی تھی، اکتوبر 2005 میں قیامت خیز زلزلہ آیا جس میں زیادہ نقصان تو شمالی پہاڑی علاقوں اور آزاد کشمیر میں ہوا، مگر اسلام آباد میں بھی ایک کثیر منزلہ رہائشی عمارت گر گئی تھی، اس عمارت کے ملبے میں بے شمار لوگ زندہ پھنسے ہوئے تھے، مگر ان کو نکالنے کیلئے فائر بریگیڈ یا کسی ادارے کے پاس مشینری اور آلات نہیں تھے۔ اس طرح ہنگامی حالات میں سول ڈیفنس کے محکمے کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی، شاید اسی کے پیش نظر اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے سربراہ ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے عرصے سے غیر فعال سول ڈیفنس کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا۔، اسلام آباد سول ڈیفنس کے رضاکاروں نے ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر گزشتہ ہفتے مری میں شدید برفباری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے المیہ کے پیش نظر مری کے متاثرہ علاقوں میں برف ہٹانے اور پھنسے سیاحوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے آپریشن میں پاک فوج کی امدادی کام میں مدد کی اور بیسیوں سیاحوں کی گاڑیاں نکال کر ان کی جان بچائی۔ اسلام آباد جیسے جدید شہر میں جہاں کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہی چاروں اطراف آبادیاں اُگ رہی ہیں اور کثیر منزلہ عمارتیں کھڑی ہو رہی ہیں، جن میں کم ہی ایمرجنسی کی صورت میں حفاظتی لوازمات اور محفوظ انخلا کا انتظام ہوتا ہے، اس وجہ سے کسی آتشزدگی یا دوسری ایمرجنسی میں لوگوں کی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ سانحہ مری کی انکوائری کرنے والے کمیشن میں انکشاف ہوا ہے کہ مری میں برف ہٹانے والی 20 مشینیں ایک جگہ کھڑی تھیں، مگر ان کو استعمال میں لانے کے لیے ڈرائیور اور ڈیزل نہیں تھا، اگر وہاں سول ڈیفنس کا شعبہ ہوتا تو اس کے انچارج کو احساس ہوتا،اب اگر ایک سانحہ گزر چکا ہے، ایک بار پھر شہری دفاع کی ضرورت و اہمیت اجاگر ہوگئی ہے تو اب حکومت کو چاہیے کہ ہر شہر میں بالخصوص پنجاب اور کے پی کے سیاحتی مراکز پر شہری دفاع کو فعال کیا جائے، تاکہ آئندہ کسی ناگہانی آفت کی صورت میں انسانی جانوں کے نقصان سے بچا جا سکے اور نئی کثیر منزلہ عمارتوں کے نقشے منظور کرنے سے پہلے محکمہ سول ڈیفنس کی طرف سے کلیئرنس اور این او سی ضروری قرار دیا جائے تاکہ محفوظ انخلا اور آگ بجھانے کے جدید نظام کی تنصیب ممکن بنائی جا سکے، دنیا میں تو 1940 سے شہری دفاع انتظامیہ کا لازمی شعبہ تسلیم کیا جا رہا ہے، مگر ہم اسے فراموش کر چکے ہیں اس وجہ سے کسی بھی قدرتی آفت یا انسانی غفلت کے حادثے میں ہمارے ہاں جانوں کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔