قطع نظر اس بات کے کہ کورونا میں تیزی کی نئی لہر چوتھی ہے یا پانچویں، اس مہلک وائرس کے پھیلا ؤمیں خطرناک حد تک تیزی آگئی ہے، کراچی میں متاثرہ مریضوں کی شرح 40 فیصد ہوگئی ہے جبکہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی یہ شرح دگنی ہو گئی ہے، اگرچہ وفاقی وزیر اور این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے گزشتہ سال اس خطرے سے آگاہ کیا تھا کہ کورونا کی ایک نئی لہر آئے گی، مگر انہوں نے اس سے بچا ؤکیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے نہ ہی اجتماعات پر پابندی لگائی، اب عوامی سطح پر ایس او پیز پر عملدرآمد تو ختم ہو گیا ہے، اگرچہ حکومت نے گزشتہ سال کے دوران حفاظتی ویکسین کی ایک تیسری ڈوز بوسٹر لگانا شروع کر دی تھی، پہلے بوسٹر لگانے کیلیے کم سے کم عمر 30 سال رکھی گئی تھی، جو اب 18 سال کر دی گئی ہے، مگر بوسٹر لگوانے کیلئے آگاہی مہم نہیں چلائی گئی اور اس وجہ سے یہ زیادہ کامیاب نہیں رہی، اس کے علاوہ اس بات کے اعدادوشمار بھی جمع نہیں کیے گئے کہ کورونا کے مریضوں میں کتنے وہ ہیں جنہوں نے ویکسین کی دو ڈوز لگا رکھی ہیں، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ویکسین کورونا سے محفوظ رکھنے میں کتنی موثر ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نئے کیسز میں زیادہ تر ویرینٹ اومی کرون ہے، جو ابھی تک زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوا، مگر اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بہرحال دنیا میں اومی کرون کے خلاف بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ نیا ویرینٹ ایک سال کی عمر تک کے بچوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے، کوویڈ 19 نے بڑی تباہی کی مگر اس سے بچے محفوظ رہے تھے، اگر بچوں میں یہ وائرس پھیل گیا تو یہ بہت پریشان کن ہو سکتا ہے، اس لئے حکومت کو بوسٹر ڈوز لگوانے کی آگاہی مہم تیز کرنے اور سکولوں میں پابندیاں سخت کرنے جیسے اقدامات کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کورونا کا نیا ویرینٹ بھی تیزی سے پھیل رہا ہے، اگرچہ بھارت کی طرف سفری پابندیوں کے باعث وہاں سے وائرس آنے کا امکان کم ہے، مگر یو اے ای جیسی ریاستوں میں مقیم پاکستانی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں یہ موسم ایک طرف کورونا کے پھیلا ؤکا موسم بن گیا ہے تو ساتھ ہی سیاسی سرگرمیاں بھی تیز ہورہی ہیں، بالخصوص کراچی میں سیاسی اجتماعات زیادہ ہو رہے ہیں، جو بے احتیاطی اور غیر ذمہ داری کی مثال ہیں، اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے، جن میں کثیر لوگوں کا اختلاط ہو، یہ بات واضح ہے کہ کورونا سے بچا ؤکی واحد ترکیب انسانی فاصلہ اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل ہی ہے، اس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے اور یہ صرف حکومت نہیں اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اب تک آنے والی لہروں میں پاکستان کو دنیاکے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم جانی نقصان کاسامنا کرنا پڑاہے تاہم اس حوالے سے غفلت کی گنجائش ہر گز نہیں اور ہو سکتا ہے کہ حالیہ لہر میں یہ حساب کتا ب بربر ہوجائے۔ بیماری جو بھی ہواس کے تدارک کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ پہلے مرحلے میں بچاء اور پرہیز و احتیاط کا مرحلہ آتا ہے اور جب مرض لاحق ہو تو پھر علاج کا مرحلہ آتا ہے، کورونا وبا کے حوالے سے علاج کا مرحلہ آنے سے قبل تدارک اور بچاؤزیادہ اہم ہے کیونکہ اس بیماری کاکوئی موثر علاج اب تک دریافت نہیں ہوا۔ ویکسینیشن کا مرحلہ ابھی جاری ہے اور جس قدر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگ جائے تو اس قدر نقصان میں کمی آئیگی۔ رہی بات لاک ڈاؤن کی تواب پوری دنیا میں اس حوالے سے یہ نظریہ پھیلنے لگا ہے کہ اس کا زیادہ فائدہ نہیں ہورہا۔ ویکسیننیشن اور مناسب فاصلہ ہی اس کا موثر تدارک ہے۔