بھارتی مسلمانوں کو درپیش نسل کشی کے خطرات 

بھارت میں ہندو بنیاد پرست بلکہ دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کی ذیلی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی اور نفرت انگیز سرگرمیوں سے بدنام سیاستدان نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے بھارت میں غیر ہندو اقوام بالخصوص مسلمانوں کی نسل کشی کی منظم کوششیں ہوتی رہی ہیں اور بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمان شہریوں کو اقلیت میں بدلنے اور ان سے جینے کا حق چھیننے کے لیے ریاستی وسائل اور آئین سازی کا بھی سہارا لیا ہے، ان سب کے بارے میں پاکستان سرکاری سطح پر اور میڈیا کے ذریعے عام لوگ بھی دنیا کو خبردار کرتے آرہے ہیں، لیکن دنیا نے ہمیشہ اس جانب آنکھیں بند رکھیں ہیں، اس کے باوجود چند اصول پرست امریکی سینیٹرز اور آزاد تنظیموں نے اس صورتحال پر آواز اٹھائی ہے۔ حال ہی میں نسل کشی کے خطرات سے آگاہ کرنے والے ایک عالمی شہرت کے حامل ماہر ڈاکٹر گریگوری سٹیٹن نے ایک بریفنگ میں بھارتی مسلمانوں کے وجود کو لاحق خطرات کے حوالے سے اقوام عالم کی آنکھیں کھولنے کے لیے حقائق بیان کیے ہیں، گریگوری سٹیٹن کی تنظیم "جینوسائیڈ واچ" 2002 کے گجرات فسادات کے وقت سے بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی سے آگاہ کرتی آرہی ہے، تاہم گزشتہ ہفتے ہونے والی بریفنگ میں ڈاکٹر گریگوری نے مسلمانوں کی نسل کشی کے خطرات کو جس تفصیل سے واضح کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال واقعی اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جتنا سمجھا جاتا ہے، نسل کشی کے دس مراحل کا نظریہ پیش کرنے والے ماہر ڈاکٹر نے بھارتی مسلمانوں کی نسل کشی سے الرٹ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمان نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں ہیں، اس طرح ڈاکٹر گریگوری کے نظریہ کے مطابق بھارتی مسلمانوں کا صفایا ایک قدم کے فاصلے پر ہے، کیونکہ اس نظریے کی کلاسیفیکیشن میں دسواں مرحلہ نسل کشی کے جرائم سے انکار کا ہے، چنانچہ بھارت کی اکیس کروڑ سے زائد مسلم آبادی کے نسلی بچا کے لئے اقوام عالم کے متحرک ہونے کا یہی موقع ہے۔ ڈاکٹر گریگوری جن اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں، بھارت میں شدت پسندوں کا اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ سلوک اس کی شہادت دیتا ہے، جبکہ گذشتہ ماہ منعقد ہونے والے ہندو شدت پسندوں کے اجتماع میں مسلمانوں کی اجتماعی قتل عام کی باتیں جس طرح کی گئی ہیں، اس کے بعد بھی خطرات مزید زور پکڑ گئے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں غیر جانب دار طبقہ کمزور، بے سروپا اور اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہے، اس کی سماجی سطح پر اس انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف کسی آواز کے اٹھنے کی توقع نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں یہ بھی قابل توجہ ہے کہ پانچ سال قبل ڈاکٹر گریگوری نے ہی روانڈا کی نسل کشی کے خطرے سے آگاہ کیا تھا، جو سچ ثابت ہوا، اس لیے اب بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے درپیش خطرات سے آگاہ کیا جارہا ہے تو اس کو معمولی سمجھنے کی غلطی کی گنجائش نہیں ہے، اور نہ ہی اقوام عالم اس سے چشم پوشی کر سکتی ہے۔ نسل کشی کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ مسلسل عمل ہوتا ہے اور بھارتی مسلمانوں کے لیے جو حالات پیدا کیے جا رہے ہیں، وہ نسل کشی کے عمل کو اگلے مراحل میں پہنچا ہوا دکھا رہے ہیں، جہاں مسلم آبادی کو سرکاری سرپرستی میں اپنی شناخت کے بحران سے دوچار کیا جا رہا ہے، اسی سلسلے میں ترمیم شدہ شہریت قانون، مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کو تبدیل کرنا بطور خاص قابل توجہ ہے، ڈاکٹر گریگوری اس کا تقابل روانڈا کے حالات اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں سے کرتے ہیں، ان دونوں مقامات پر نسل کشی کی بنیاد سماجی تفریق سے رکھی گئی، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایسی کئی علامات موجود ہیں، ڈاکٹر گریگوری کے انکشافات دنیا کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہیں، اگرچہ بھارت کی تجارتی منڈی اور بڑی آبادی دنیا کی آنکھیں اور زبان بند کر دیتی ہیں، اس سے بھارت کی متعصب اور انتہا پسند حکومت کو مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے خلاف اقدامات کی شہ ملتی ہے، پاکستان نے ہمیشہ سرحد پار مسلمان بھائیوں کے مشکل حالات، جن کی گواہی مغرب سے ہی مل رہی ہے کہ بارے میں اقوام متحدہ کو آگاہ کیا ہے تاکہ مسلمانوں کو نفرت انگیز سلوک سے محفوظ بنایا جا سکے۔تاہم اب عالمی برادری پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بارے میں عملی اقدامات کرے۔