صدارتی نظام کی بازگشت کیوں؟

ایک ایسے وقت، جبکہ ملک میں ایک جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت قائم حکومت اچھے یا برے حالات میں اپنی آئینی مدت کا تین چوتھائی حصہ پورا کر چکی ہے، اپوزیشن اور حکومتی پارٹی کا بھی سارا زور اور توجہ آئندہ سال کے وسط میں ہونے والے عام انتخابات پر ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ سیاسی نظام میں موجود تمام جماعتیں پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتی اور اس کے تحت نظام چلانے کی حامی ہیں لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے صدارتی نظام کی افادیت اور ضرورت کے حق میں ایک مہم چلائی جا رہی ہے، اگرچہ صدارتی نظام بھی جمہوری نظام کی ہی ایک شکل ہے جو امریکہ سمیت کئی ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے پاکستان کے لیے بھی صدارتی جمہوریت کوئی نئی بات نہیں، یہاں بھی 1950 کی دہائی سے لے کر کچھ عرصے تک کئی صدر حکومت کر چکے ہیں، اس نظام میں قیادت کی مرکزیت کے باعث خوبیاں بھی ہیں، ہمارے ملک میں ٹھوس ترقی کی بنیاد صدارتی نظام میں ہی رکھی گئی، بڑے ڈیمز اور صنعتوں کی تعمیر ہوئی ملک معاشی لحاظ سے مستحکم رہا، قیمتوں پر کنٹرول رہا اور عوام خوشحال رہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صدارتی نظام سے کچھ ترقیاتی بہتری کی یادیں وابستہ ہیں تو ملک دولخت ہونے کی تلخ حقیقت بھی شامل ہے لیکن اصل مسئلہ صدارتی اور پارلیمانی نظام کا نہیں بلکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ کی بات ہے۔ ہمارے کئی جمہوری وزرائے اعظم نے بھی تمام اختیارات خود اپنے پاس رکھے،اس لئے کسی نظام کو برا کہنا بھی مناسب نہیں، اصل مسئلہ انصاف میں عدم مساوات اور عوام کو اختیارات میں شامل نہ کرنا ہے، ساری دنیا میں جمہوریت پارلیمانی ہو یا صدارتی، انتظامی اختیارات بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوام کے پاس ہیں مگر ہماری یہ تاریخ ہے کہ بلدیاتی ادارے زیادہ عرصہ غیر فعال ہی رہے۔ اگرچہ یہ آئینی طور پر ضروری ہیں اور سپریم کورٹ نے بار بار حکم دے کر صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی انتخابات کرانے پر مجبور کیا، مگر دانستہ طور پر ان اداروں کو غیر فعال رکھا گیا اور ان کے اختیارات ماضی میں سلب کئے جاتے رہے اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام سے زیادہ غیر جمہوری دیکھا گیا ہے‘موجودہ حکومت نے انقلابی فیصلہ کیا اور بلدیاتی اداروں کو زیادہ بااختیار بنایا بلکہ ضلعی انتظامی افسران اور پولیس کو بھی بلدیاتی اداروں کے ماتحت کیا، شاید اسی وجہ سے روایتی سیاستدان اور بیورو کریسی بلدیاتی اداروں کی بحالی اور فعالیت میں رکاوٹ بن گئے اور آج بھی سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو اختیار دینے کو تیار نہیں۔ سندھ کی ساری اپوزیشن ایسے قوانین کے خلاف سراپا احتجاج ہے، تو مدعا یہ ہے کہ اصل معاملہ کچھ سیاستدانوں کی غیر جمہوری سوچ کا ہے، نظام کوئی بھی نہ تو مکمل خراب ہوتا ہے اور نہ ہی کمزوریوں سے پاک، جب قانون کا نفاذ ہو اور انصاف اور ترقی ہر گھر تک پہنچ جائیں تو وہی نظام جمہوری ہے، اگر پارلیمانی جمہوریت میں عام شہریوں کو انصاف نہ مل سکے اور نہ ہی ترقی کے ثمرات مل سکیں تو ایسے میں نظام کو بہتر قرار دینا قرین از انصاف نہیں عوام کو بنیادی سہولیات سے غرض ہے وہ جس نظام میں ملیں وہ بہتر ین ہے۔