پاکستان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا اور دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ ایک جمہوری عمل کے ذریعے اس کا قیام ممکن ہوا۔ ایک سیاسی تحریک اور انتخابی عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والے ملک میں سیاست تو ہے مگر جمہوریت اور جمہوری رویے ناپید ہو چکے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ کو نظر انداز بھی کر دیں تو حالیہ چند سالوں میں سیاست کے نام پر جو مخالفت برائے مخالفت ہو رہی ہے وہ جمہوریت کیلئے ایک تازیانہ کی حیثیت رکھتے ہیں، ہونا تو یہ چاہئے یہ قومی اور ملکی مفاد کے امور میں حکومت اور اپوزیشن یک آواز ہو تاہم یہاں پر یہ رویہ اب دیکھنے میں نہیں آرہا۔ اس وقت ملک جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کئی اہم امور پر تو کم ازکم مفاہمت ضرور ہو۔ اب 23مارچ کو اپوزیشن نے اسلام آباد میں جس احتجاج کی کال دی ہے وہ اس حوالے سے نامناسب ہے کہ یہ دن اسلام آباد نہیں بلکہ پورے ملک میں یوم پاکستان کی تقاریب کیلئے خاص ہے اور اسلام آباد میں تو اس دن سخت سیکیورٹی ہوتی ہے کہ مسلح افواج کی پریڈ کا انعقاد ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ کا یہ کہنا صحیح ہے کہ سیاست اپنی جگہ تاہم کچھ حساس معاملات کا احساس اپوزیشن کو کرنا چاہئے اور امن کو قائم رکھنا ان میں سے ایک ہے۔ جس طرح شرو ع میں ذکر ہوا کہ پاکستان کا وجود میں آنا ہی ایک جمہوری عمل کا نتیجہ ہے تو ایسے میں تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوریت کے استحکام کیلئے یک سو ہوں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جو جمہوریت کے مفاد میں نہیں۔ احتجاج اپنی جگہ حزب اختلاف کا حق ہے تاہم اس کیلئے مناسب وقت اور مناسب مقام کا تعین لازمی ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عام آدمی اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے اور ان کو اس سے کوئی سرو کار نہیں کہ حکومت میں کون ہے اور حزب اختلاف میں کون۔ اس وقت کچھ لوگ نظام حکومت کے حوالے سے بھی قیاس آرائیاں کر رہے ہیں تو اس ضمن میں بھی یہ کہنا مناسب ہے کہ عوام کے مسائل حل ہوں ان کو ضروریات زندگی سہولت کے ساتھ آسانی سے مہیا ہوں اور یہی کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے،چاہے نظام جو بھی ہو، صدارتی یا پارلیمانی۔۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں آنے والے انتخابات کیلئے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے میں مصروف ہیں، اپوزیشن حکومت پر تنقید کرکے اور مہنگائی میں اضافے کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر عوام کو آنیوالے الیکشن میں اپوزیشن کو موقع دینے کیلئے تیار کر رہی ہے اور حکومت کی کوشش ہے کہ وہ باقی ماندہ عرصے میں ایسے اقدامات کرے کہ جس سے عوام کوریلیف ملے اور وہ دوبارہ موجودہ سیٹ اپ کو حکومت میں آنے کا موقع دے اور دیکھاجائے تو دونوں طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔تاہم عام آدمی کا بھلا اس میں ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں آپس میں مفاہمتی پالیسی پر عمل کریں اور کشیدگی سے گریز کریں۔ عام انتخابات میں اب عرصہ کم ہی رہ گیا ہے اوروقت کم اور مقابلہ سخت کی صورتحال ہے۔