کورونا اور حکومت 

کوئی بھی آفت اگر کسی شہریا ملک پر حملہ آور ہوتی ہے تو اس کو رفع کرنے کیلئے حکومتیں مناسب اقدام کرتی ہیں۔ اس میں سب سے بڑا کام عوام کا تعاون ہوتا ہے۔یعنی اگر ایک متعدی بیماری حملہ آور ہوتی ہے اور حکومت اپنی حد تک اس آفت کے تدارک کی کوشش کرتی ہے تو یہ کوشش تب کامیا ب ہو پاتی ہے کہ اگر اس میں عوام کا تعاون بھی حاصل ہو۔ مثال کے طورپر اگر ملک پر فلو کا حملہ ہوتاہے تو حکومت فلوکے بیماروں کے علاج کابندو ست بھی کرتی ہے مگراس کے ساتھ ساتھ عوام سے بھی اپیل کرتی ہے کہ وہ بھی حکومت کی طرف سے دی گئی تجاویزپر عمل کرے۔ کسی بھی متعدی بیماری کے علاج کے ساتھ ساتھ اس کے روکنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے اور اس کیلئے عوام کا ساتھ بہت لازمی ہوتا ہے۔ اگر صرف علاج تک رہا جائے توبات مکمل نہیں ہوتی۔ ضروری ہوتاہے کہ جو بھی احتیاطی تدابیر حکومت کی طرف سے اختیار کرنے کا مشورہ دیا جائے اس پر من و عن عمل کیاجائے ورنہ بات نہیں بنتی۔ اگر کوئی بیماری ایسی ہے کہ جس کے پھیلاؤ میں لوگوں کا ایک جگہ اکٹھا ہونا ہے تو مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا نہیں ہونا چاہئے جیسے کہ شادی بیاہ کی رسومات وغیرہ کہ ا س میں لوگوں کا اکٹھ ہوتا ہے اور ایسے میں متعدی پیماریوں کاپھیلاؤ آسان ہو جاتاہے اس لئے ایسے اجتماعات سے حتی الوسع اجتنا ب کیا جانا چاہئے۔ یہ حکومت کے احکام بھی ہوتے ہیں اور اپنے بچاؤ کیلئے بھی ضروری ہوتا ہے، دوسری صورت میں اگر ان باتوں پر اس لئے عمل نہ ہو کہ چونکہ حکومت نے ایسا کہا ہے تو پھر بیماری کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں رہے گا اور بیماری کا پھیلاؤ روکنا محال ہو جائے گا۔ دیکھا گیاہے کہ جب سے یہ کورونا کی بیماری نے ملک پر حملہ کیا ہے کچھ دن تو لوگوں نے حکومت کے احکامات پر عمل کیا ہے مگر پھر لوگ اپنے رویے پر آ گئے ہیں کہ جو کچھ حکومت کہے اُس پر کب تک عمل کریں گے۔ یہ ہمارا تقریباً اجتماعی رویہ ہے کہ جو کچھ بھی حکومت کی طرف سے احکامات آئیں ان کی نفی کرنی ہے۔ ایسا کیوں ہے ہم تو ابھی تک اس رویے کو نہیں سمجھ سکے۔ حکومت کی جانب سے جو بھی احکامات آتے ہیں ہمارا ان پر عمل در آمد نہ کرنے کا مزاج بنا ہوا ہے۔زیادہ تر حضرات اس بات کو نہیں مانتے کہ جو حکومت کی طرف سے کہا جاتا ہے۔ یہ عجیب رویہ ہے کہ حکومتی احکامات کی خلاف ورزی کی جائے چاہے وہ ہمارے فائدے کیلئے ہی کیوں نہ ہوں۔ حالانکہ جو بھی احکامات حکومتوں کی طرف سے آتے ہیں وہ عوام کی فلاح ہی کے لئے ہوتے ہیں۔چاہے ایک حکومت ہمیں پسند ہے یا نہیں ہے اُس کی جانب سے جو بھی کام کئے جاتے ہیں یا جو بھی احکامات دیئے جاتے ہیں وہ عوام کی فلاح ہی کیلئے ہوتے ہیں ایک حکومت جب اقتدار میں آ جاتی ہے تو وہ کسی پارٹی کی حکومت نہیں رہتی بلکہ وہ عوام کیلئے ہوتی ہے اور جو کچھ کام بھی وہ کرتی ہے وہ عوام اور ملک کیلئے ہوتے ہیں وہ کسی پارٹی کیلئے نہیں ہوتے۔ اس لئے عوام کو بھی پارٹی کے حسا ب سے نہیں سوچنا چاہئے اب کے ہم جس مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں اس میں پارٹی کی بات تو ختم ہی ہو جاتی ہے اس لئے کہ یہ بلا تو ہم سب کے گلے پڑ گئی ہے اور اس سے ہمیں سب کو ایک ہو کرسو چنا اورکام کرنا ہے۔ اب جب کہ کورونا کی پانچویں لہر نے پنجے گاڑنے شروع کئے ہیں تو ہمیں ایک بار پھر اجتماعی طور پرایسا رویہ اپنانا ہوگا اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا کہ پچھلی لہروں کی طرح اس بار بھی جانی نقصان کو کم از کم رکھا جائے۔ حکومت مکمل لاک ڈاؤن تو نہیں کررہی تاہم احتیاط نہ کی جائے تو شاید حالات اس طرف چلے جائیں۔