وفاقی کابینہ نے فوجداری قوانین میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے، جن کے مطابق اب کریمنل کیس کا فیصلہ 9 ماہ میں کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے، جبکہ فوجداری کیسز میں پلی بارگین کی گنجائش رکھی گئی ہے، ایس ایچ او کیلئے گریجویشن تک تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے اور سب سے اہم ترمیم پولیس کے اختیارات میں اضافہ ہے، جس میں پولیس کو ضمانت لینے کا اختیار بھی شامل ہے، پاکستان میں قوانین تو شاید پہلے سے بھی موجود ہیں، مگر اصل مسئلہ ان پر عمل درآمد کا ہوتا ہے۔ تھانہ تو خیر غریب کیلئے پہلے ہی عقوبت خانے کی حیثیت رکھتا ہے، اگرچہ معاشرے میں پولیس اور تھانے کا خوف جرائم میں کمی کا سبب ہونا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف دور میں پولیس ریفارمز متعارف کرائی گئی تھیں اور پنجاب میں تو تھانے کا نام بھی دارالامن رکھ دیا گیا تھا، مگر اندر سے تھانے کا ماحول تبدیل نہیں ہوسکا، اس لیے ضروری ہے کہ پولیس کے اختیارات میں اضافہ کرنے سے پہلے پولیس کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے تھانوں میں باقاعدہ مذہبی سکالرز اور معتبر علما سے لیکچر دلوائے جائیں تاکہ پولیس کو اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کے بارے میں آگاہی مل سکے، کسی سے زیادتی کی اور کسی گناہ گار کو رشوت لے کر رعایت دینے جیسی اخلاقی کمزوریوں پر قابو پایا جاسکے، اور پولیس کو مناسب اخلاقی تربیت کے بغیر ضمانت دینے کا اختیار دینے سے بھی رشوت کا نیا راستہ کھل جائے گا اور عدالتوں میں کیس کی پیروی میں بھی مشکلات پیش آئیں گی، اگر کیس عدالت نے ہی سننا ہے اور فیصلہ بھی کرنا ہے تو ضمانت کا اختیار بھی عدالت کے پاس ہی رہنا چاہئے، کیونکہ ضمانت کا کیس کے فیصلے سے اہم تعلق بنتا ہے، بہرحال اس میں کریمنل کیسز کا 9 ماہ میں فیصلہ اہم ہے، ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی کریمنل کیسز کا سالوں چلنا اور فیصلہ نہ ہونا ہے۔ کیس کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے میں پولیس کا کردار ہے، ہم روز دیکھتے ہیں کہ پولیس عدالت پر الزام لگاتی ہے کہ وہ ملزمان کی ضمانت لے لیتی ہے اور پولیس کو تفتیش کا وقت نہیں ملتا کمزور تفتیش اور شہادتوں کی وجہ سے عدالت کے فیصلے میں سقم آتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پولیس کو متوازی تربیت دی جائے تاکہ جلد اور مصنفانہ فیصلوں کا نظام وضع ہو سکے۔ حکومت کی یہ خواہش خوش آئند ہے کہ وہ مقدمات کے جلد فیصلوں کو ممکن بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے، مگر اس کیلئے صرف پولیس کے اختیارات میں اضافہ کرنا اور فیصلہ کرنے کی مدت مقرر کرنا ہی کافی نہیں‘اس کیلئے تھانے کا ماحول بھی انسان دوست بنانا ضروری ہے تاکہ وہ ظلم اور زیادتی کرنے سے خوف کھائیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ادارہ جاتی اصلاحات کا جوعمل موجودہ حکومت نے شروع کیا ہے اس کو انجام تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ اسکے مثبت اثرات جلد از جلد سامنے آسکیں اور خدمات کی فراہمی میں بہتری آئے۔