اپوزیشن بھی کیا کرے 

آج کل کے موسموں کی طرح ملک کے سیاسی حالات کے حوالے سے بھی پیش گوئی کرنا مشکل ہے، یعنی نظر آتا کچھ اور ہے اور ہوتا کچھ اور ہے۔اب دیکھئے نا‘ سینٹ میں ایک بار پھر آپ سیٹ ہو گیا سٹیٹ بنک بل 42 کے مقابلے میں 43 ووٹ سے حکومت منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی‘ سینٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے مگر سٹیٹ بنک بل کی منظوری کے وقت پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے 9 ارکان غیر حاضر تھے، اگر سب کے پاس غیر حاضر ہونے کا جواز ہوگا مگر اپوزیشن کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو اہم مواقع پر یہ اکثر غیرحاضر رہتے ہیں۔018 میں اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی، اپوزیشن کے پاس واضح برتری تھی اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک ناکام بھی ہو سکتی ہے، اپنے ممبران کو مضبوط کرنے اور کی ممکنہ خواری سے بچنے کیلئے اپوزیشن نے سینٹ میں اپنی عددی برتری ثابت کرنے کیلئے فائنل گنتی سے پہلے گنتی کروائی تو اپوزیشن ارکان کی تعداد پوری نکلی، مگر جب تحریک پر ووٹنگ ہوئی تو اپوزیشن کے 14 نمبر کم تھے، اپوزیشن کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس پر کیا ردعمل دے، سینیٹ میں بڑی پارٹی مسلم لیگ نون تھی اور اس کے بلوچستان سے چند ارکان مشکوک تھے، چنانچہ پیپلزپارٹی نے نون لیگ پر الزام لگایا کہ اس کے ارکان نے دھوکہ دیا جب کہ نون لیگ نے سینیٹ انتخابات کے موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے انتخاب کے وقت پیپلزپارٹی کے کردار کا حوالہ دے کر پی پی پی پر الزام لگا دیا، دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے تحقیقات کیلئے پارٹی کے اندر کمیٹیاں بنا دیں اگرچہ تین سال ہوگئے اور ابھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ حکومت نے منی بجٹ یا مالیاتی بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کیا، متحدہ اپوزیشن نے سخت مزاحمت کی اور کسی صورت بل منظور نہ ہونے دینے کا اعلان کر دیا، اس منی بجٹ کو قوم کی موت قرار دیا گیا، مگر جب حکومت نے بل پیش کیا تو اپوزیشن نے ساتھ دے کر منظور کروا دیا۔ اب اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم عجیب مخمصے میں ہے کہ کیا کرے، حکومت گرانے کیلئے ان ہاؤس تبدیلی تو ناممکن ہی سمجھی جارہی ہے، اب تو لانگ مارچ اور دھرنے پر بھی اپوزیشن قیادت پریشانی کا شکار ہے، اس صورتحال میں اب یہ بات تو یقینی ہے کہ اپوزیشن کے تمام دعوؤں کے باوجود موجودہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور انتخابات 2023 میں اپنے وقت پر ہی ہوں گے‘تاہم حزب اختلاف نے مہنگائی اور عوامی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے جو تحریک شروع کی ہے اسے حکومت پر دباؤ ضرور پڑا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس کے نتائج مثبت سامنے آئیں دوسری طرف حکومت بھی اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور عین ممکن ہے کہ حکومت الیکٹرونک مشین کے ذریعے الیکشن کروانے میں بھی کامیاب ہو جائے گی۔ اس حوالے سے آنے والے دنوں میں اہم پیش رفت کے امکانات ہیں جو اس حوالے سے نیک شگون ہے کہ انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بڑھ جائے گا۔