پاکستان کے علاوہ کئی معتدل مغربی شخصیات اور غیر جانبدار اداروں کی بھی بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونے والی انتہاپسندی کی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں، مگر اقوام عالم، بھارت کے منفی کردار سے چشم پوشی کرتی ہیں، اس کی وجہ بھارت جیسی بڑی تجارتی منڈی اور دیگر مفادات ہو سکتے ہیں لیکن دنیا کو اخلاقی ذمہ داریاں بھی نبھانی ہونگی۔ ظلم اور دہشت گردی پر خاموشی سے جنوبی ایشیا میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے، عالمی برادری اور بالخصوص اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کا رویہ مایوس کن رہا ہے اور اسی وجہ سے جنوبی ایشیا میں مثالی استحکام اور ترقی اور علاقائی تعلقات میں پیش رفت نہیں ہوسکی، سی پیک جیسے عظیم المقاصد اور ترقیاتی منصوبے میں بلوچستان کو مرکزی حیثیت اور اہمیت حاصل ہے، علاقائی ترقی کا یہ منصوبہ بھارت کو ہضم نہیں ہو رہا، اس حوالے سے کئی بھارتی رہنما اپنے بغض اور خبث باطن کا اظہار کر چکے ہیں، اس صورتحال میں پاکستان کیلئے قومی سلامتی کے خدشات پیدا ہونا فطری امر ہے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ماضی میں افغانستان کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی میں ملوث عناصر کے ٹھکانے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور وہاں سے فنڈز اور ہتھیار بھی سپلائی ہوتے رہے آج بھی صورتحال ویسی ہی ہے‘ طالبان کے آنے کے بعد بھی ہر ممکن تعاون جاری ہے اور پاکستان کی مخلصانہ کوشش ہے کہ افغانستان مستحکم ریاست کے طور پر کھڑا ہو، اس کے بدلے پاکستان افغانستان سے صرف یہی چاہتا ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو، طالبان کی طرف سے اگرچہ یہ یقین دہانی کرائی گئی ہیکہ ایسا ہی ہوگا مگر حالیہ دہشت گردی واقعات کا مطلب ہے کہ کچھ عناصر افغانستان میں موجود ہیں جو طالبان اور پاکستان دونوں کیلئے مسائل کھڑے کر رہے ہیں، پاک افغان سرحد کی زمینی صورتحال ایسی ہے کہ اس پر نظر رکھنا آسان نہیں، اسی وجہ سے پاکستان نے سرحدی باڑ کا مہنگا اور مشکل منصوبہ شروع کیا تاکہ قومی سلامتی کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے اور یہ منصوبہ تقریباً مکمل ہے اس صورتحال میں پاکستان کے لئے بہت کچھ کرنا ضروری ہے، جیسے بارڈر سیکورٹی کو سخت کیا جائے، افغانستان میں موجود پاکستان دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے طالبان حکومت پر مزید زور ڈالا جائے، اس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی نے اسی ہفتے افغانستان کو دورہ کیا اور طالبان قیادت کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کئے ہیں تاکہ دہشت گردی کی روک تھام ہوسکے، یہ بات خوش آئند ہے کہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں، مگر ضروری ہے کہ اس ترقی کے ثمرات جلد عام آدمی تک پہنچ جائیں اور عام آدمی کی زندگی پر ان کے اثرات نظر بھی آئیں۔