یوں تو ملک میں متعدی بیماریوں کے حملے ہوتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی ملیریا کبھی ٹائیفائڈ، کبھی چیچک کبھی کچھ اور کبھی کچھ مگرانسان بھی ہر بیماری کے آگے چٹان بن کے کھڑاہوتا رہا ہے اور اپنی بقا کی جنگ لڑتا آیا ہے اور اس میں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں،گو قدرت کی طرف سے آزمائشوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور انسان کی چھٹکارے کی کاوشیں بھی جاری ہیں۔ اس دفعہ کی جو موذی مرض جس نے حملہ کیا ہوا ہے اس کو کورونا کا نام دیا گیاہے جس کی آئے روز نت نئی قسمیں سامنے آتی ہیں،کبھی کورونا تو کبھی ڈیلٹا اور اومیکرون۔ایک وائرس کیلئے ویکسین ابھی بنا نہیں کہ دوسرے وائرس کیلئے ویکسین کی تیاری شروع کی۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا نے ابھی تک بہت زیادہ نقصان کیا ہے جبکہ انسان متواتر اس بلا سے چھٹکارے کی تگ و دو میں ہے اور اس میں کافی حد تک کامیا ب بھی ہے مگر اس وبا کے پھیلاؤ کا جو طریقہ ہے اس پر قابو پانے کی کوششیں تو کی جا رہی ہیں مگر صورت حال یہ ہے کہ اس وبا کے پھیلاؤ میں اجتماعات کو زیادہ دخل ہے۔ ا جتماعات پر یوں تو قا بو پایا جا سکتا ہے مگر یہ اجتماعات میں ایسے اجتماع بھی شامل ہیں کہ جن پر انسان قابو پانے سے قاصر ہے۔ اس لئے کہ یہ انسان کی مجبوری ہیں۔ بازار سے سودا لانا تو انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور جب آپ بازار میں ان خریداریوں کی کوشش کرتے ہیں تو لا محالہ آپ کو اکٹھ تو کرنا پڑتا ہے اس لئے کہ بازار میں خریداری کے لئے ایک ایک کر کے تو جایا نہیں جا سکتا ظاہر ہے کہ جب خریداری کی بات ہے تو یہ تو ہر گھر اور ہر شخص کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہربندے کوبازار تو جانا پڑتا ہے اور جب ہر کوئی جائے گا تو ظاہر ہے کہ بازار میں اکٹھ تو ہو گا اور یہی تو کورونا چاہتاہے اور کورنا اپنا کام دکھائے گا اور پھر مریضوں میں اضافہ تو ہو گا۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس مرض کا ابھی تک شافی علاج بھی تو نہیں مل پایا سوائے اس کے کہ احتیا ط کی جائے۔ ا س بیماری میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ آپ کو یہ معلوم ہی نہیں نہیں ہو پاتا کہ آپ سے ملنے والا شخص اس بیماری میں مبتلا ہے یا نہیں۔ اسلئے کہ اس کی علامات ظاہر ہونے تک تو یہ اپنا کام کافی حد تک کر چکا ہوتا ہے اور ایک بیمار شخص جسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بیمار ہے اس کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ کرے کہ اس کا کوئی شافی علاج مل جائے مگر جب تک نہیں ملتا ہمیں خود ہی احتیا ط سے کام لینا ہو گا۔لوگوں سے ہاتھ ملانے۔ ان سے گلے ملنے وغیرہ میں احتیاط کرنی ہو گی۔ گو ہم ایساکر نہیں سکتے مگر جب یہ ضروری ہو تو دل پر جبر کر نا ہی پڑے گا۔ کہنے والے یہی کہتے ہیں۔ تو پھر کیا کیاجائے۔ ہر آدمی اپنا ٹسٹ بھی نہیں کروا سکتا اور ہر کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ اس مرض کا شکار ہو گیا ہے۔