اسلامو فوبیا اور مغرب، سوچ میں مثبت تبدیلی

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بڑے واضح الفاظ میں اسلاموفوبیا کو نفرت انگیز عمل قرار دیتے ہوئے اس کو ناقابل قبول کہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو تحفظ دینے اور اسلاموفوبیا کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، پاکستان کے وزیراعظم نے کینیڈین ہم منصب کی طرف سے اسلاموفوبیا کی کھلی مذمت اور دور حاضر کے فتنے کے انسداد کیلئے خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، کینیڈین وزیراعظم نے یہ فیصلہ 29 جنوری کے دن کیا ہے، 2017 میں 29 جنوری کے دن کینیڈا کی کیوبیک سٹی کی مسجد میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا، جس میں 6 نمازی شہید ہوگئے تھے، گزشتہ برس کینیڈین حکومت نے اس مناسبت سے 29 جنوری کو اسلامو فوبیا کے خلاف اقدامات کے دن کے طور پر منانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، کینیڈین حکومت کے حالیہ فیصلے کو اس ارادے سے کمٹمنٹ کا ثبوت قرار دیا جاسکتا ہے، یہ فیصلہ کینیڈا میں بسنے والے 12 لاکھ مسلمانوں کے لئے بطور خاص سماجی تحفظ اور حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا۔ گزشتہ برس جون میں ایک پاکستانی مسلم فیملی کی ٹرک حملے میں المناک موت کینیڈا میں اسلاموفوبیا اور تہذیبی ٹکراؤ کا خوفناک واقعہ تھا، جس کا دکھ دنیا بھر میں محسوس کیا گیا، کینیڈا کے مسلمانوں کیلئے یہ واقعہ شدید عدم تحفظ کا محرک تھا، مگر امید کی جاسکتی ہے کہ وہاں کی حکومت کا حالیہ فیصلہ، جو بلاشبہ جراتمندانہ فیصلہ ہے، کینیڈین مسلمانوں کے اعتماد میں اضافہ کرے گا، اور وہاں سماجی امن و سکون اور توازن کا باعث بنے گا۔ امت مسلمہ کے لیے مجموعی طور پر اس فیصلے کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ مغربی ممالک میں مسلمانوں کیلئے بڑھتا ہوا سماجی اور مذہبی امتیاز دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے تشویش کا باعث ہے، پچھلے چند برسوں کے دوران اسلاموفوبیا کے واقعات میں اضافے پر مسلم رہنماؤں کی جانب سے بیانات اور عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوششوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، وزیراعظم عمران خان کے کا ان کوششوں میں بلاشبہ قابل قدر حصہ ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں انھوں نے اسلامو فوبیا کے مسئلہ پر کھل کر بات کی تھی، ان کے علاوہ ترک صدر طیب اردوان اور ملائیشیا کے رہنما مہاتیر محمد بھی اس مشن میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ رہے، بلکہ ایک موقع پر تینوں ممالک اسلاموفوبیا کے خلاف عملی اور شعوری کوشش کے طور پر اور اسلام کی حقانیت سے دنیا کو آگاہ کرنے کیلئے ٹی وی چینل قائم کرنے اور دستاویزی فلمیں بنانے کے منصوبے پر بھی غور کرتے رہے۔ مغرب میں اسلامو فوبیا کے تہذیبی اور سماجی خطرات سے آگاہی کا احساس بیدار ہونا خوش آئند ہے، کینیڈا کو اس سلسلے میں یہ سبقت حاصل ہے کہ یہ پہلا ملک ہے جس نے ریاستی سطح پر اسلاموفوبیا کے خلاف عملی اقدامات کا عندیہ دیا ہے، کینیڈین حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ اسلاموفوبیا روزمرہ زندگی کی ایسی حقیقت ہے، جس کا سامنا مسلم آبادی کو کینیڈا اور دیگر ممالک میں کرنا پڑتا ہے، چنانچہ جب ہم اسلاموفوبیا کے متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں تو یہ ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ اسلاموفوبیا اور امتیازی رویوں کے خاتمے کے لیے اقدامات سے اپنے سماج کو وسیع المشرب بنائیں۔ توقع اور امید ہے کہ جس حقیقت کو کینیڈا کی حکومت نے سمجھا ہے، مغرب کے دیگر ممالک کی حکومتیں بھی اس کو سمجھیں گی اور اپنے ہاں مسلمانوں کے عقائد، آزادیوں اور ثقافت کے تحفظ کو یقینی بنائیں گی۔ مغربی دنیا اپنی اقدار کا پرچار کرتی ہے اور یہی تاثر دیتی ہے کہ وہ پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کی سب سے بڑی داعی ہے، مگر اسلاموفوبیا کے بڑھتے واقعات نے مغرب کے بظاہر محفوظ اور جمہوری معاشروں کو مسلم آبادی کیلئے خوفناک خواب بنا دیا ہے، اس نفرت اور تشدد کی لہر کے خلاف وہاں کی حکومتوں کی غیر فعالیت اور چشم پوشی تشدد میں اضافہ کا محرک ثابت ہورہی ہے، بہر کیف اس عدم تحفظ کی فضا میں کینیڈا کی حکومت کا فیصلہ خوشگوار پیشرفت ہے، جس کے اثرات یقینا دوسرے مغربی ممالک میں بھی محسوس کیے جائیں گے، اور وہاں بھی مذہبی بنیادوں پر تفریق، نفرت اور تشدد کی روک تھام کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔ اس ضمن میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کا یہ یہ بیان بھی قابل تحسین قرار دیا جاتا ہے جس میں انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی آزادی اظہار رائے نہیں، نہ ہی اس کیلئے فنکارانہ آزادی کا جواز اختیار کیا جاسکتا ہے، مغربی اقتدار کے ایوانوں میں یہ پہلا واضح موقف تھا جس نے آزادی اظہار کی ذمہ داریوں کے تناظر میں مسلم دنیا کے موقف کی تائید کی، بہرحال کینیڈا حکومت کا یہ فیصلہ مغرب کی سوچ میں تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے، اس وقت اسلام یورپ کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور اس براعظم میں اسلاموفوبیا اور آزادی اظہار کی آڑ میں مسلمانوں کے عقائد اور ثقافت پر حملوں کے واقعات دیگر خطوں سے زیادہ ہیں، یورپی یونین کے 28 رکن ممالک میں مسلمانوں کی آبادی اڑھائی کروڑ کے قریب ہے، اتنی بڑی آبادی کو مذہبی بنیادوں پر امتیازی رویوں کا نشانہ بنانا یورپی سماجی اقدار کے بھی منافی ہے، بہر کیف اب دیکھتے ہیں کہ یورپ میں اس حوالے سے کب شعوری بیداری پیدا ہوتی ہے۔