وزیراعظم عمران خان کا غیر معمولی دورہ چین ایسے وقت ہو رہا ہے جب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سفارتی سردمہری اور اعلی سطح پر روابط کم ہونے سے ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں، پاکستان اور چین کے درمیان برادرانہ تعلقات کوئی آج کی بات نہیں، جس پر کوئی ملک چونک پڑے یا حیران ہو جائے، یہ عشروں پر محیط دوستی ہے، جس کو برقرار رکھنے میں کسی حکومت کی شرط نہیں، بلکہ یہ عوام کی عوام کے ساتھ دوستی ہے، جس کو دونوں ممالک کی حکومتیں دوام بخشتی رہی ہیں۔ چین پاکستان کے ایک سال بعد معرض وجود میں آیا، لیکن اس نے وہ کر دکھایا جس کی ہر ملک خواہش ہی کرسکتا ہے، چین نے کروڑوں انسانوں کو غربت سے نکال کر یہ ثابت کیا کہ محنت اگر کوئی ایک بندہ کرے تو ایک فرد کے حالات تبدیل ہوتے ہیں، لیکن اگر اجتماعی اور معاشرتی طور پر محنت کی جائے تو ایک معاشرہ یا ملک بھی تبدیل ہو سکتا ہے، چین میں دنیا نے ایسا ہی دیکھا کہ ایک غریب ملک چند سالوں میں دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں شامل ہو گیا۔ چار فروری سے چین میں سرمائی اولمپکس گیمز کا آغاز ہو رہا ہے، جس میں شرکت کیلئے وزیراعظم عمران خان بھی مدعو ہیں، اس دورے میں یقینی طور پر چین کے صدر سمیت اعلی حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے، اسی لئے اس دورے کے بارے میں تجزیہ کیا جا رہا ہے کہ یہ دورہ چین پاکستان تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔ چین دیکھ رہا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے جب سے صدر جو بائیڈن کی امریکہ میں حکومت آئی ہے، امریکہ کی انتظامیہ نے پاکستان کو دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں دیوار سے لگانا جاری رکھا ہے، اعلی سطح پر امریکہ اور پاکستان میں کوئی رابطہ نہیں، صرف امریکہ کی ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمین پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے، اور انہی کے ذریعے پاکستان سے رابطہ کیا جاتا ہے، وہ بھی بہت ضرورت کے تحت، پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں جس کو نظر انداز کیا جا سکے، جنوبی ایشیا میں جغرافیائی اور عسکری حیثیت یا طاقت خطے کے دوسرے ممالک سے ممتاز کرتی ہے، ایسے ملک کو نظر انداز کرنے یا دیوار سے لگانے کے نتائج برآمد ہوتے ہیں، اگر گذشتہ کچھ عرصے میں پیش آنے والے کچھ واقعات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے جان بوجھ کر پاکستان کو نظر انداز کرنے کی روش اختیار کیے رکھی، ان واقعات سے ہی وزیراعظم عمران خان کے دورہ اور پاکستان چین تعلقات کو نئی جہت کا اندازہ ہو سکے گا۔ گزشتہ سال 14 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بتایا تھا کہ پاکستان کے بہت سے مفادات ہیں، لیکن کچھ مفادات ایسے بھی ہیں جو امریکی مفادات سے متصادم ہیں اس کے بعد 8 اکتوبر کو ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمین نے ایک حیران کن بات کی، وہ بھی دہلی میں، انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ وسیع البنیاد تعلقات بنتے ہوئے نہیں دیکھ رہا اور ان کے پاکستان دورے کا مقصد صرف افغانستان کے بگڑتے حالات ہیں اور کوئی چیز نہیں، پھر وینڈی شرمین نے بھارت کے ساتھ اپنے سٹریٹیجک تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سب کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس وہ صلاحیتیں موجود ہوں جن سے ہم بھارت سمیت ہر کسی کی سلامتی کو یقینی بنا سکیں، پھر وینڈی نے کہا میں اپنے دورہ پاکستان کے بارے میں معلومات دہلی میں اپنے دوستوں کو فراہم کروں گی۔ عمران خان نے ایک امریکی ٹی وی پر اپنے انٹرویو میں امریکہ کو افغانستان کے خلاف فوجی اڈے دینے کے سوال پر ابسلوٹلی ناٹ (Absolutely Not) کہہ کر امریکی انا کو اتنی ٹھیس پہنچائی کہ وہ اب تک اس غم سے نہیں نکل پایا، اب ہم فروری 2022 میں ہیں، جس میں وزیراعظم عمران خان چین کا اہم دورہ کر رہے ہیں، کیا یہ دورہ اس لئے ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اچھا برتا روا نہیں رکھا، اس کا جواب نہیں میں ہے، کیونکہ پاکستان کے پہلے ہی چین کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں اور کئی بار وزیراعظم عمران خان یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ وابستہ ہے، پاکستان اور چین دونوں سی پیک کے تزویراتی بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور اب قریبی تعاون سے نئی سطح پر لے جا سکتے ہیں۔