حکومت اپنا آدھے سے زیادہ عرصہ مکمل کر چکی ہے۔ جیسا تیسا بھی تھا اب ان کے پاس کچھ بھی کرنے کیلئے تھوڑا عرصہ رہتاہے، اس دوران عالمی سطح پر مشکل حالات کے باوجود اپنی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کیلئے بھی بھرپور کوششیں کی جار ہی ہیں۔۔جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو وہ ایک دفعہ اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں اور پھر اگلے پانچ یا چار سال حکومت کی کارکردگی کو مختلف صورتوں میں جانچتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ سیاست دان جب ووٹ مانگنے آتے ہیں تو عوام کے ساتھ طرح طرح کے وعدے کرتے ہیں جن کے بل بوتے پر عوامی ووٹ کے ذریعے ا گلے پانچ سال کیلئے حکومت سنبھال لیتے ہیں اور پھر سارے وعدے جو سیاست دان اس عوام کے ساتھ کرتے ہیں وہ خدا جانے کہاں کھو جاتے ہیں اکثر حالات میں تو یہ سیاستدان پانچ برس کے وقفے کے بعد پھر ایک بار عوام کی عدالت میں خو کو پیش کرتے ہیں اور نئے وعدوں کے باغات لے کر عوام کے پاس آ جاتے ہیں ا اور عوام بھول جاتی ہے کہ ان لوگوں نے کیا کیا وعدے پہلے بھی کئے تھے اور ان میں کوئی ایک بھی پورا نہیں ہو ا تھا مگر عوام کے پاس اور راستہ بھی تو نہیں، وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے،دیکھا جائے تو ملک نے کئی شعبوں میں بھی بڑی حد تک ترقی کی ہے۔ جب یہ ملک وجود میں آیا تھا تو حال یہ تھا کہ اس کے سرکاری دفاترمیں اتنا کچھ بھی نہ تھا کہ سرکاری ملازم اپنا کام بھی کر سکتے مگر پھر ان ہی سرکاری ملازموں نے اور اس کے دیگر ملازموں نے اس ملک کو ایٹمی قوت بھی بنا دیا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس ملک کے لوگ اتنی توانائیوں کے حامل ہیں کہ یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔مشکل سے مشکل حالات کا اس ملک کے باسیوں نے مقابلہ کیا ہے۔باجود اس کے کہ بھارت جیسا دشمن ملک پڑوسی ملا ہے جو اول رو ز سے پاکستان کے وجود کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے تاہم دشمن کے ہتھکنڈوں کے با وجود پاکستان ہر شعبے میں ترقی کر رہا ہے‘تاہم اس کیلئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ بد قسمتی سے یہی وہ شعبہ ہے جہاں ہم کمزور واقع ہوئے ہیں۔ ہمہ وقت حکومت اور حزب اختلاف کی سیاسی رسہ کشی کے عمل نے عوامی بہبود اور بھلائی کے منصوبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔سیاسی بے چینی کی صورت میں حکومت سارا وقت اپنی جان بچانے میں لگی رہتی ہے اور عوام کیلئے کوئی کام نہیں کر پاتی۔ یہ حکومت کی غلطی نہیں ہے بلکہ یہ سارا کام حزب اختلاف کا ہوتا ہے کہ جو ہارنے کے باوجود وہ جیتنے والوں کو کام کرنے نہیں دیتی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو بھی پارٹی جیت جاتی ہے دوسری ساری پارٹیاں اُس کے ساتھ تعاون کریں اور صرف ملک کو آگے لے جانے کی کوشش کریں اور اس کام میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں مگر یہاں کا دستور ہی نرالا ہے کہ ہارنے والے ہار تو جاتے ہیں مگر اپنی ہار نہیں مانتے اور جیتنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے رہتے ہیں اور نہ کھیل پاتے ہیں اور نہ کھیلنے دیتے ہیں۔ اس وقت بھی ملک میں سیاسی گرما گرمی ہے اور ایک طرف لانگ مارچ کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف اس کامقابلہ کرنے کی باتیں۔ ایسے میں ممکن ہے کہ جو عرصہ رہتا ہے حکومت کا اس میں اسے کام کرنے دیا جائے اور اگر کارکردگی اچھی نہیں رہی تو عوام حزب اختلاف کو موقع دے دیں گے، دوسری صورت میں اگر عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو اسی جماعت کو دوبارہ حکومت بنانے کیلئے چن لیں گے۔ جمہوریت کا بھلااسی میں ہے کہ ہر حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔