سیاسی گہما گہمی میں اچانک اضافہ

ابھی موسم بہار نہیں آیا مگر ملک میں سیاسی حوالے سے بہار آ چکی ہے، سیاسی گہما گہمی کے آثار بتا رہے ہیں کہ آنے والے چند ماہ سیاسی سرگرمیاں مزید تیز ہوں گی، ایک طرف اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہے، جس کے نتیجے میں لانگ مارچ اور حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلانے کے دعوے سامنے آرہے ہیں، جبکہ دوسری جانب حکومت بھی رابطہ عوام مہم کے نام پر سیاسی جلسے جلوس شروع کرنے کی تیاری میں ہے۔ اپوزیشن رابطوں میں بڑی پیشرفت گزشتہ ہفتے لاہور میں دو سیاسی خاندانوں کی ملاقات ہے، یہ دونوں خاندان دو سیاسی جماعتوں کے قائدین اور وارثین ہیں، جو گزشتہ دو سال سے اپنی اپنی راہوں پر چل رہے تھے، اگرچہ 2020 میں یہ دونوں پارٹیاں مل کر جلسے بھی کرتی رہیں، بہت نزدیک آ کر ساتھ چلنے کے وعدے بھی کرنے لگی تھیں، مگر چند ماہ بعد ہی بڑی تیزی سے اختلافات ابھرے، بڑا اختلاف تو اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں بڑی جماعتوں کے درمیان اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر سامنے آیا تھا، لیکن گزشتہ سال مارچ میں سینیٹ انتخابات بھی اپوزیشن کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوئے تھے، جن کے باعث اپوزیشن کے حالات یہاں تک پہنچے کہ جس اتحاد نے حکومت کو مشکل میں ڈالنا تھا، وہ اپنے ہی بوجھ سے مشکل میں آگیا، پی ڈی ایم کی جانب سے پیپلز پارٹی کو اظہار وجوہ کا نوٹس پیپلز پارٹی کے اتحاد سے علیحدگی کا باعث بن گیا اور ایک دوسرے پر الزامات نے واضح کیا کہ اپوزیشن اتحاد پائیدار نہیں، یہی سردمہری اور شکستہ دلی سارا سال اپوزیشن پر طاری رہی، یہاں تک کہ اس سال کے شروع میں پیپلزپارٹی نے  لانگ مارچ کا اعلان کردیا اور اس کے بعد اپوزیشن میں رابطے بحال ہونے لگے، مارچ کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی کے رابطوں کا سلسلہ ایسے ماحول میں شروع ہوا  جب  اپوزیشن پر کمزوری کے الزامات لگائے جارہے تھے، اس پس منظر کے ساتھ کیا اپوزیشن جماعتیں حکومت کے لیے کوئی خطرہ پیدا کرنے کے قابل بھی ہیں، اس کا جواب بڑا واضح ہے۔ اپوزیشن میں ہم آہنگی کا عالم تو چند دن پہلے سٹیٹ بینک بل کی منظوری سے بھی ظاہر ہو گیا تھا، اسی وجہ سے اپوزیشن رہنماؤں کے رابطوں کی بحالی بھی کوئی مضبوط تاثر قائم نہیں کر سکی، دوسری جانب وزیراعظم نے بھی عوامی رابطہ مہم کے طور پر سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کا اعلان کر دیا،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مضبوط اپوزیشن جمہوری نظام میں حکومت کو راہ راست پر رکھنے میں مدد دیتی ہے، مگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے زیادہ فعال ہونے کا ثبوت  نہیں دیا۔ تاہم باوجود اس کے لانگ مارچ سے حکومت کو گھر بھیجنے کا سوچ رہی ہے، اپوزیشن یہ نہیں دیکھ رہی کہ ساڑھے تین سال کے دوران اس نے عوام کا مقدمہ لڑا ہی نہیں، سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی تحریک کی جدوجہد ان کے اپنے مفادات کے تناظر میں تھی، جس کو جہاں مفاد نظر آتا، سب کو پھلانگتے ہوئے آگے بڑھتی نظر آتی، جبکہ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور بدانتظامی میں پستی رہی، جبکہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے بیانیہ تک محدود نظر آئیں، اب امکان یہی ہے کہ عوام حکومت اور اپوزیشن کے ہر ایسے عمل سے بیزار اور الگ ہی رہیں گے، جس سے جمہوری نظام کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو، حکومت کی بے عملی اپنی جگہ مگر عوام کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کریں گے، جمہوری نظام کی بقا آئین کی متعین کردہ حدود میں رہ کر چلنے میں ہے، جو سیاسی جماعتیں پارلیمان کے اندر تبدیلی نہیں لا سکتی، وہ سڑکوں پر نکل کر بھی ملک وقوم کے لیے کچھ نہیں کر سکتی، اور یہ بات طے ہے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی لانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی اور کئی مواقع پر پارلیمنٹ میں اپنی کمزوری ثابت کر چکی ہے، اس تناظر میں اگر چند ماہ سیاسی طور پر گہما گہمی نظر آئے گی، مگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ اور غالب امکان یہی ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور مقررہ وقت پر انتخابات کے ذریعے اگلی حکومت کا فیصلہ ہو اور دیکھا جائے تو یہی وہ مناسب رویہ ہے جس کا مظاہرہ سیاست میں ہونا چاہئے کہ عوام نے جس  کو چنا ہے اسے اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع دیا جائے اور پھر ووٹ کے ذریعے فیصلہ کیا جائے۔