مثبت پیش رفت

حکومت نے مختلف وزارتوں کی کارکردگی پر درجہ بندی کر کے 80 فیصد اور زائد بہتر کارکردگی والی 23 وفاقی وزارتوں کی رینکنگ جاری کی ہے اور اس میں 10 سرفہرست وزراکو وزیراعظم نے توصیفی اسناد بھی دی ہیں، اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ سزا اور جزا کے بغیر کوئی نظام کامیاب نہیں ہو سکتا، تعریفی اسناد کی تقسیم سے وفاقی وزارتوں میں مزید بہتری آئے گی، انہوں نے کہا کہ گورننس کا مقصد عوام کی زندگی میں بہتری لانا ہونا چاہئے، وزیراعظم کا کہنا بجا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کارکردگی ہی وہ پیمانہ ہے جس وزراء کو کابینہ میں اپنی جگہ اور مقام کو بنانا ہے۔کسی بھی حکومتی ڈھانچے کااولین مقصد ہی عوام کو خدمات کی فراہمی کو بہتر اور تیز کرنا ہے۔وزیر اعظم نے جس ایجنڈے کیلئے عوام سے ووٹ لیا ہے اور اس کی پارٹی کو عوامی تائید ملی ہے تو اس ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانا یقینا ضروری ہے اور ایک طرح سے ذمہ داری بھی۔ ایسے میں یہ مثبت عمل ہے کہ وزیر اعظم کابینے میں شریک وزراء کی کارکردگی پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی درجہ بندی کرتے ہوئے انہیں اپنی کارکردگی مزید بہتربنانے پر ابھارتے بھی ہیں۔ دیکھا جائے تو اب وقت کم اور مقابلہ سخت کے مصداق حکومت کے پاس کم وقت ہے اور انہیں زیادہ سے زیادہ کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں یقینا وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ترجیحات سامنے رکھی ہیں۔ سب سے اولین ترجیح عام کوریلیف دینا ہے جو ہر شعبے میں ملنا چاہئے چاہے وہ اشیائے خوردنوش کی قیمتوں کا معاملہ ہے یا پھر معیار کا۔ اس وقت ملک کو بجلی کے سستے منصوبوں کی بھی اشد ضرورت ہے اور یقینا یہ امر قابل اطمینان ہے کہ اس وقت دس سے زائد بڑے آبی منصوبے تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں جن کی تکمیل سے سستی بجلی پیدا ہوگی اور یہ بڑا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ ماضی میں کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی کیونکہ یہ منصوبے دوررس اثرات کے حامل تو ہوتے ہی ہیں تاہم کی تکمیل بھی زیادہ عرصہ لگتا ہے اورماضی میں حکومتوں کی کوشش رہی کہ وہ ایسے منصوبے پروان چڑھائیں جو ان کے دور حکومت میں پورے ہوں اور وہ ان کا کریڈٹ لے سکیں۔ یہ تو موجودہ حکومت ہے کہ جس نے یہ نکتہ نظر انداز کرتے ہوئے ایسے منصوبے شروع کئے جو شاید بعدمیں آنے والی حکومتوں میں تکمیل تک پہنچیں تاہم ان کے شروع کرنے کا کریڈٹ عمران خان حکومت کو ضرور جائیگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جو بجلی کے آبی منصوبے زیر تکمیل ہیں ان کے اثرات آنے والے سالوں میں سامنے آئیں گے اور ایک وقت آئیگا کہ جو توانائی بحرن اس وقت ملکی معیشت کو متاثر کررہاہے وہ ختم ہوجائیگا۔حکومت نے ایک اور اچھا قدم جو اٹھایا ہے وہ زراعت کو ترقی دینے اور اس سلسلے میں چین کے تجربات سے استفادہ کرنے کافیصلہ ہے۔ زراعت کو ہم ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تو قرار دیتے ہیں تاہم اس کی ترقی کیلئے کسی بھی حکومت نے مربوط اور منظم کوششیں کبھی نہیں کیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم اس وقت زرعی اجناس کو بھی درآمد کرتے ہیں۔ زراعت کے حوالے سے قدرتی ذرائع اور وسائل کی موجودگی میں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ معاشی طور پر بھی حکومت کی کارکردگی ملی جلی رہی ہے اور مشکل حالات کے باوجود مثبت معاشی اشارے اس امر کا ثبو ت ہیں کہ ملک جلد یا بدیر معاشی مشکلا ت سے نکل جائیگا۔اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملک کو صحیح سمت میں گامزن کر دیا ہے اور اب یہ آنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان خطوط پر ملک کو چلانے کے ذریعے مختلف شعبوں میں مثبت پیش رفت کو جاری رکھیں اور حکومت کے ایسے منصوبوں کو مثال بنا کر دیگر پراجیکٹس شروع کریں۔ جیسے صحت کارڈ اور احساس پروگرام کے تحت مختلف ریلیف کے اقدامات یقینا اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں حکومت اور حزب اختلاف کو مفاہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔جہاں تک وزیر اعظم کی طرف سے کابینہ کے اراکین کی کارکردگی چانچنے کا معاملہ ہے تو اسے ہر سطح پرسراہا جا رہا ہے کیونکہ وزراء کو جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ان کے حوالے سے باز پرس بھی ضروری ہے۔