ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں 

کچھ عنصر ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے ردوبدل کا سارے معاشرے پر اثر پڑتا ہے۔ ان میں سے ایک پٹرول کی قیمتیں ہیں جنکے بڑھنے سے تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔چاہے وہ سبزی ہو، یا دال گوشت وغیرہ۔ جس دکاندار سے پوچھو کہ کیوں قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے تو کہتے ہیں پٹرول کی قیمت بڑھ گئی ہے اب ہمیں ان اشیاء کو لانے لیجانے میں زیادہ کرایہ دینا پڑتا ہے۔ یہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے تاہم ایک اور معاملہ ہماری سمجھ سے باہر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتاہے تو اس کے ساتھ بھی دکاندار اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ اعلان میں اور ادائیگی میں جو فرق ہے اُسے تنخواہ دارطبقہ تو سمجھتا ہے مگر دکان داروں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ جس تنخواہ میں اضافے کی بات ہوئی ہے وہ تنخواہ دار کو ایک دو ماہ بعد مل پائے گا مگر دکان دار ا س اضافے کو اُسی دن سے اپنی اشیائے صرف پرلاگو کر لیتے ہیں۔ ایک دفعہ جو رات کواعلان ہوا کہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا گیا ہے تو ہم دوسرے دن کو دکان سے کچھ سودا لینے گئے تو وہ پہلے سے مہنگا تھا۔ ہم نے کہا کہ یار یہ چیز کل تو اس قیمت کی تھی آج کیا ہوا کہ اس کے قیمت میں یہاں پڑے پڑے اضافہ ہو گیا ہے تو اس نے بڑی معصومیت سے کہا کہ جناب آپ کی تنخواہ میں اضافہ جو ہو گیاہے۔ ہمیں قیمتیں تو بڑھانی ہی ہیں نا۔ ہم نے کہا کہ بھائی جس اضافے کی بات ہوئی ہے وہ تو ہمیں دو ماہ بعد ملے گا آپ نے آج ہی سے قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے تو اُس نے جواب دیا کہ آپ کو اضافی تنخواہ ملے گی تو سہی نا اور اسی ماہ سے ملے گی تو ہمارا اضافہ تو بجا ہے۔ ہم کس کوبتائیں کہ تنخواہ میں اضافے کا اعلان ہو ا ہے ابھی تک ملا تو نہیں مگر دکاندار نے تو سن لیا ہے کہ ان کی تنخواہ زیادہ ہوگئی ہے اس لئے اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کر لیا جائے۔ اور کون ہے کہ جو پوچھے کہ بھائی آپ نے کس لئے اضافہ کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ایک ہی شعبے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی جائے تو عوام کو ریلیف دینے میں آسانی مل سکتی ہے اور وہ شعبہ ہے اشیائے صرف کی قیمتوں کی مانیٹرنگ اور اس پر قابو رکھنا۔ یہ وہ کام ہے جس کیلئے کوئی اضافی فنڈز کی ضرورت نہیں بلکہ صرف توجہ اور انتظامی امور کو درست کرنے سے یہ کام ہوسکتا ہے۔اب تو اگر کوئی پوچھے بھی تو دوسرے ہی دن اخباروں میں موٹی موٹی سرخیاں لگی ہوتی ہیں کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اور عوام نے تو سہنا ہے اور سہ رہے ہیں۔ تیل کیونکہ ہمارے ملک کی پیداوار نہیں ہے اس لئے اس کی قیمت کا تعین بھی ہم خود نہیں کر سکتے یہ انٹر نیشنل مارکیٹ پرہے کہ وہ کیا قیمت رکھتی ہے اس میں بھی تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی مرضی ہے۔ یا ان مغربی کمپنیوں کی مرضی ہے کہ جو اسلامی ملکوں میں سے تیل نکالتی ہیں۔ ان کی مرضی ہے کہ تیل کی جو قیمت بھی رکھ لیں۔ تیل ایک ایسا عنصر ہے کہ جو سب اشیاء کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اگر تیل مہنگاہوتا ہے توہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے۔