بھارت کی سازشیں 

بھارت میں سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز اقدامات اور انتہا پسندانہ تشدد پر بھارت مسلسل دباؤ میں ہے۔مشہور امریکی دانشور اور انسانی حقوق کے علمبردار نوم چومسکی نے بھی خبردار کیا ہے کہ بھارت میں اسلاموفوبیا نے مہلک شکل اختیار کر لی ہے۔ کرناٹک میں تعلیمی اداروں میں مسلمان لڑکیوں کے حجاب پر پابندی اور ایک مسلمان باحجاب لڑکی مسکان خان کو ہندو بلوائیوں کے ہراساں کرنے پر نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں احتجاج اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔اب کرناٹک حکومت کے فیصلے کے خلاف ریاستی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کیس بھی زیر سماعت ہے اور معاملہ بھارتی عدلیہ کے پاس ہے لیکن اس صورت حال سے بھارتی حکومت سخت دبا ؤمیں ہے۔بی جے پی کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے بھارت میں تشدد پسندی کا پرانا فارمولہ آزمایا جا سکتا ہے اور اس پیشگوئی نما تجزیہ کے آثار تحریک طالبان ہند ٹی ٹی آئی کے قیام کی صورت میں سامنے آگئے ہیں۔اگرچہ پاکستانی وزیراعظم بھی کئی بار ان خدشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ بھارت اپنے ملک کی زوال پذیر صورتحال سے توجہ ہٹانے کیلئے مودی حکومت پلوامہ طرز پر دہشت گردی کا ڈرامہ کر سکتی ہے تاکہ عالمی برادری کی ہمدردیاں سمیٹی جاسکیں اور مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دبانے کیلئے تشدد کے ہتھکنڈوں کا نیا بہانہ مل سکے۔بھارت میں ہندو انتہا پسندی معمول بن چکی ہے۔ہندو انتہا پسندوں کے اجتماعات میں مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے حلف اٹھائے جارہے ہیں، گوشت کی خرید و فروخت اور حجاب جیسے اسلامی شعائر پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ بھارت مسلسل عالمی تنقید کی زد میں ہے اور دنیا بھر میں اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، جبکہ جینو سائیڈ واچ جیسے مستند ادارے بھارت میں مسلم نسل کشی کی پیشگوئی کر رہے ہیں، ساتھ ہی عالمی تنظیمیں مودی سرکار کی فاشست پالیسیوں کو بے نقاب کر رہی ہیں۔اس سارے پس منظر میں ایک گمنام اکاؤنٹ کے ذریعے ٹی ٹی آئی کے قیام کا اعلان حیرانگی کی بات نہیں ہے، البتہ تشویشناک ضرور ہے، اور اس سے بھارتی مسلمانوں اور مقبوضہ وادی کے باسیوں کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا گیا ہے۔بھارت کی مودی حکومت اور عوام پر گہری نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ٹی ٹی آئی درحقیقت را کا ایک پروجیکٹ ہے جس کی آڑ میں مودی حکومت کو دباؤ سے نکالنے کا منصوبہ ہے، آج نہیں تو کل یہ حقیقت طشت ازبام ہو جائے گی کیونکہ سچائی زیادہ دیر چھپی نہیں رہ سکتی۔یہ بھارتی آشیرباد اور وسائل ہی ہیں جن کے بل بوتے پر پاکستان میں دہشت گردی کی جاتی رہی ہے۔حالیہ عرصے میں بلوچستان کے علاقوں نوشکی اور پنجگور میں جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے ان کے ڈانڈے بھی بھارت سے ملتے ہیں بلکہ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے اور جعلی خبروں کا جو طو فان بر پا رہا وہ بھی بھارت سے آپریٹ ہونے والے اکاؤنٹس کی کارستانی تھی۔آج کے دور میں یہ جاننا زیادہ مشکل نہیں رہا کہ کونسے اکاؤنٹ کہاں سے آپریٹ ہو رہے ہیں اور کس کو کس کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے. بلوچستان کی کالعدم تنظیموں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہوں یا کالعدم ٹی ٹی پی کے، بیشتر بھارت سے ہی آپریٹ ہو رہے ہیں۔بھارت سوشل میڈیا کے ذریعے کیسے پروپیگنڈا کر رہا ہے، یہ ای یو ڈِس انفو لیب کی جامع رپورٹ میں واضح ہو چکا ہے۔یہ بات طے ہے کہ ٹی ٹی آئی کا ڈرامہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے توجہ ہٹانے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو دبانے کیلئے لے رچایا گیا ہے۔