حکومت ہر پندرہ دن بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کرتی ہے، اگرچہ یہ عموماً بڑھتی ہی ہیں، یکم فروری کو وزیر اعظم نے قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ مسترد کیا تھا، یہ توقع تو تھی کہ 15 فروری کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا مگر یہ امید نہیں تھی کہ یہ اضافہ 12 روپے فی لیٹر سے زیادہ ہوگا، وزیراعظم نے امید دلائی تھی کہ زیادہ اضافہ منظور نہیں کریں گے، مگر رات گئے ہونے والے فیصلے میں پٹرول 12 روپے، ڈیزل 9 روپے مٹی کے تیل کی قیمت میں 10 روپے سے زیادہ اضافہ کر دیا گیا اور اس کے بعد پٹرول کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 160 روپے لیٹر تک پہنچ گئی، اس سال یہ تیسرا اضافہ کیا گیا، اس سے پہلے یکم جنوری اور پندرہ جنوری کو 3 سے 4 روپے تک اضافہ کیا گیا تھا، وزارت خزانہ کا موقف ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کم کرنے سے حکومت کو ہر ماہ 70 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، جبکہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا موقف ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان تناؤ کے باعث عالمی منڈی میں تیل مہنگا ہو رہا ہے، آخر ہم کتنی دیر تک اضافہ روک سکتے ہیں، ان کا کہنا بجا ہے کہ عالمی سطح پر قیمتیں بڑھیں تو ہمیں بھی بڑھانا پڑتی ہیں۔وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر تنقید کر رہی ہیں لیکن کسی بھی تنقید کا اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ آپ متبادل دیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اب اپوزیشن بتائے کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل 60 ڈالر سے 95 ڈالر پر پہنچ جائے تو حکومت قیمت کیسے نہ بڑھائے؟ کوئی جادو کا چراغ ہے تو بتا دیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی شدید مذمت کی ہے۔ اپوزیشن نے پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ ایوان میں اٹھایا تاہم ایوان سے واک آؤٹ کرنے کے باعث اس معاملے پر بحث نہ ہوسکی۔اگرچہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بے یقینی صورتحال اور بڑی طاقتوں کے تناؤ کے باعث عالمی منڈی میں توانائی کی قیمتیں عدم استحکام کا شکار ہیں، مگر ملکی سطح پر عوام بدترین مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، جب کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے وہ تمام اشیائے ضرورت مزید مہنگی ہو جاتی ہیں، جو مجموعی مہنگائی کو مہمیز دیتی ہیں۔ گزشتہ دنوں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتوں میں بھی ناقابل برداشت اضافہ کیا گیا تھا، جبکہ گیس سیکٹر کا سرکلر ڈیبٹ 700 ارب روپے تک پہنچنے پر گیس کی قیمتوں میں اضافے پر بھی رضامندی ظاہر کر دی گئی ہے اور خدشہ ہے کہ اگلے ماہ گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا، یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ 7 لاکھ 50 ہزار ٹن اوسط کھپت کے ساتھ پٹرول اور 8 لاکھ ٹن کھپت کے ساتھ ڈیزل حکومت کے ریونیو کے بڑے ذرائع ہیں، تاہم یہ امر بھی حکومت کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ توانائی کے نرخ بڑھانے سے کثیر جہتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ عوام کو بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثر کرتی ہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی اور ٹرانسپورٹیشن سمیت اشیائے خوردونوش کے نرخوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے، جس سے مہنگائی کا ایک نیا منہ کھل جاتا ہے۔ مہنگائی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ توانائی ذرائع کے بڑھتے ہوئے نرخ بھی ہیں، ایسے ہوشربا ء اضافے سے نیچے سے اوپر تک میکرو اور مائیکرو معیشت کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے۔ حکومت کو ریونیو کے لئے ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانا اور توانائی کے نرخوں کو قابو میں رکھنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ حکومتی زعماء عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کا جواز پیش کرتے ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ایک لیٹر پٹرول پر تقریبا ً18 روپے پٹرول لیوی کی مد میں وصول کئے جارہے ہیں، جن کو آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کے تحت 30 روپے تک لے کر جانا ہے، اگر حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے کا بھاری پتھر اٹھانے کی کوشش کرے تو لیوی کی مدد میں عوام پر ناروا بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے اور عالمی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کو صاحب استطاعت طبقے کی طرف منتقل کیا جا سکتا ہے، حکومت کو عالمی اداروں کے مطالبات پر کچھ فیصلے عوامی مفاد اور لوگوں کی قوت خرید اور سکت کو سامنے رکھ کر بھی کرنے چاہئے تاکہ مہنگائی کی چکی میں مسلسل پسنے والے عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔