دو ایک دن سے موسم میں خاصا خوشگوا ر ہو گیا تھا، اور گماں تھا کہ بس اب جلد ہی سردی کا بستر باندھنے کا وقت آ نے والا ہے۔ مگر گزشتہ کل اچانک یوں ہوا کہ پہلے سورج کے آگے بادلوں نے ایک مہین سی چادر تان لی اور پھر جلد ہی ان بادلوں کا تعاقب کرتی ہوئی کالی گھنگھور گٹھائیں آئیں اور ایسے چھائیں کہ برسات کی ”اندھیری“ کی طرح بھری دوپہر شام کا منظر پیش کرنے لگی، ساون بھادوں میں تو اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے اور اْس موسم میں بہت اچھا بھی لگتا ہے کیونکہ اس طرح تھوڑی دیر کیلئے دھوپ کی شدت اور حدت سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ مگر اب تو پھاگن ہے اور پھاگن نے اپنے سفر کا آغاز ہی کالی گھٹاؤں سے کر دیا ہے جس سے دن پر شام کا گمان ہونے لگا،، دن میں اندھیرے کے سماں پر ذہن فوراََ تلوک چند محروم کے اس شعر کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو ان کی ملکہئ ہندوستان نور جہاں کے مزار پر کہی گئی نظم کا شعر ہے۔
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہ ِ نور ِ جہاں ہے
اب تو خیر پنجاب حکومت کی توجہ سے صورت حال وہ نہیں رہی، مگر میں خود پہلی بار جب ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں ”شاہدرہ، لاہور“ (باغ ِ دلکشا) آیا تھا اور فاتحہ پڑھنے ملکہ نور جہاں کے مزار پر گیا تو ایک گائیڈکے ساتھ موم بتی کی کپکپاتی روشنی میں سیڑھیاں اتر کر ان کی قبر تک پہنچا تھا، باغ ِ دلکشا کے اسی احاطہ میں اس کے بھائی آصف جاہ اور شوہر ِ نامدار شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ بھی ہے مگر شہنشاہ جہانگیر کے آخری دنوں میں عملًا حکمران رہنے والی ملکہ نو جہاں کا مقبرہ اْس وقت بہت بد حال تھا، بہر حال بات پھاگن رت کی ہورہی ہے کہ اس نے آتے ہی اپنی دھاک بٹھا دی، اور پہلے دن میں شام کا سا سماں پیدا کر دیا اور اس کے بعد ایک بھر پور چھینٹا پڑ ا تو خوشگوار موسم نے جیسے ایک جھرجھری سی لی،بارش کی اس بوچھاڑ کے بعد ہوا میں خنکی بڑھ گئی، پھر رات گئے تک خنکی سے تر بتر ہوائیں چلتی رہیں، اور زمستان ایک بار پھر جیسے انگڑائی لے کر تازہ دم ہو گیا۔ پھاگن ویسے بھی اپنی تیز پرشور ہواؤں کے لئے مشہور ہے۔ در اصل یہ ہوائیں اس لئے بھی یہاں وہاں دیوانہ وار اڑتی پھرتی ہیں کہ انہیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کہیں کوئی زرد پتا کسی درخت کی شاخ پر پر باقی تو نہیں رہ گیا، وہ سارے پتے گرا دیتی ہیں، اسی لئے یار لوگ پھاگن کے اس سنہرے موسم کو پت جھڑ کی رت کا نام بھی دیتے ہیں، اس موسم کو گلابی سردی کا موسم اس لئے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دھوپ کی شدت تنگ کرتی ہے اور چھاؤں میں سردی کا احساس ہونے لگتا ہے، یہ موسم چار گھڑی برسنے والی پھاگن کی بارش سے بھیگ کر ایک بار پھر سرد ہو جاتا ہے یہی گزشتہ کل ہوا اور پھاگن کی ہوائیں رات بھر بادلوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی ہوئیں کھڑکیوں پر دستکیں دیتی پھر تی رہیں جس کے وجہ سے چودھویں کا چاند بار بار ہلکے بادلوں میں چھپتا نکلتا رہا،،اب اگر بارش کے اس چھینٹے سے ساری فضائی کثافتیں دور ہو جاتی ہیں تو سورج کی کر نیں موسم کو بہت سہولت سے بدل دیں گی۔ پھاگن رت بکرمی کیلنڈر کا آخری مہینہ ہے،اس کے بعد چیت آتا ہے جو دیسی تقویم کا پہلا مہینہ ہے گویا سال نو کا آغاز چیت سے ہو تا ہے یہی موسم بہار کا بھی ہے نئے پھول کلیاں کھلنے کا موسم دیسی کیلنڈر کے مطابق مارچ کے وسط سے شروع ہوتا ہے،دیکھا جائے تو ہمارا سارا نظام عیسوی کیلنڈر سے جڑا ہوا ہے، مگر ہمارے ارد گرد کئی اور تقویمیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں، جیسے سب سے معتبر اور مستند ہمارا اسلامی کیلنڈر ہے جو ہماری روزمرہ کی زندگی میں سب سے زیادہ رچا بسا ہوا ہے لیکن چونکہ اس کا عمل دخل ہمارے معاشی نظام میں نہیں ہے اس لئے ہم ما ہ و شب کا حساب کتاب عیسوی کیلنڈر کی تاریخوں اور مہینوں سے کرتے ہیں، اور یکم جنوری کو باقی دنیا کی طرح سرکاری یا نجی سطح پر ہم بھلے سے گھروں سے نکل کر اور دھوم دھڑکا کر کے سال نو منائیں یا نہ منائیں، ہم گھروں کے اندر چھوٹی سکرین پر ”جشن ِ سال نو“ دیکھنا کبھی نہیں بھولتے، جس سے بظاہر ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہو تا مگر چونکہ ہم اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا کے پاس اپنا سارا وقت گروی رکھ چکے ہیں اس لئے لگان بھرنا تو بنتا ہے، پھر اسلامی کینڈر کا تو مزاج ہی الگ ہے جس کے آخری اور پہلے مہینے کے بارے میں علامہ اقبال نے کمال مہارت اور چابکدستی سے اپنی تاریخ کے سمندر کو شعر کے کوزہ میں بند کر دیا ہے۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہا یت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیل ؑ
اس میں اسلامی کیلنڈر کے پہلے مہینے محرم الحرام اور آخری مہینے ذی الحجہ کا حوالہ ہے اور دونوں مہینوں میں بڑا حوالہ قربانی کا ہے اس لئے سال نو منانے کی کوئی روایت موجود نہیں ہے، بکرمی کیلنڈر میں چیت کا پہلا مہینہ سرما کے ختم ہونے اور بہار کی وجہ سے زیادہ پر جوش اور پسندیدہ ہوتا ہے مگر سال نو کا کوئی خصوصی اہتمام نہیں ہوتا، پھر ایرانی کیلنڈر ہے جو کہ ان کے ہاں ہزاروں سال سے رائج ہے تاہم ایرانی مسلمانوں نے اسے پھر ہجری تقویم شمسی کا نا م دیا اس کیلنڈر کے مطابق سال کا پہلا دن نوروز (نیا دن)کہلاتا ہے جسے ایران،افغانستان اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں ویسے تو بیس مارچ کو منایا جاتا ہے تاہم ایک بار اقوام متحدہ کے تحت اسے اکیس مارچ کو منایا گیا، پشاور کے باسیوں کا ماننا ہے کہ نوروز پر بیس اور اکیس مارچ کو یا ان تاریخوں کے آس پاس بارش ضرور ہوتی ہے، اور اب پشاور میں گزشتہ دو برس سے سال نو کی ایک نئی روایت کا آغاز یوں ہوا ہے کہ چائنا و نڈو میں محبی ا مجد عزیز ملک اور ناز پروین چین کے سال نو کے موقع پر ایک بہت ہی خوبصورت اور بارونق جشن کا اہتمام کرتے ہیں، یہ جشن صبح سے رات تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہتا ہے جس میں سارا دن کھانا پینا اور موسیقی کے ساتھ ساتھ آنے والے مہمان چائنا ونڈو میں چین کی تاریخ اور تہذیب و تمدن و ثقافت سے آثار و تصاویر کی صورت اور امجد عزیز ملک اور ناز پروین کی عمدہ اور دلچسپ بریفنگ کے ذریعے آگاہی حاصل کرتے ہیں، اب کے بھی بارہ فروری کو چائنا ونڈو میں پشاور کے شہریوں خصوصا نوجوان اور بچوں نے ایک بارونق دن گزارا، جشن میں حکومت ِ خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل سیکریٹری شہاب علی نے ربن اور نو منتخب مئیر پشاور حاجی زبیر علی نے سال نو کا کیک کاٹا، موسم بدلتے ہیں مہ و سال بدلتے ہے یہ نظام ہستی یوں ہی رواں دواں ہے اور رہے گا، سال ِ ِ نو کسی بھی کیلنڈر کا ہو۔۔ میں تو لیاقت علی عاصم کی زباں میں ایک ہی دعا کرتا ہوں۔
گزشتہ سال کوئی مصلحت رہی ہو گی
گزشتہ سال کے سکھ اب کے سال دے مولا