معاشی عدم استحکام کے سماجی و سیاسی اثرات

معیشت اور سماج بنیادی طور پر آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں‘ایک کی کمزوری دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے‘ہمارا سماج آج جن بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے، بنیادی طور پر کہیں نہ کہیں ان کا تعلق معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ معاشی عدم استحکام کے سماجی اثرات کو ہمارے ہاں سمجھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی نہ ہی ان کے سیاسی پہلوؤں کو دیکھنے کی تکلیف کی جاتی ہے‘اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم بطور سماج ان اخلاقی اوصاف سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں جو کسی سماج کا طرہ امتیاز سمجھے جاتے ہیں‘ایک ساتھ رہتے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض کے ذمہ دار ہوتے ہیں مگر خلفشار کے شکار معاشرے ان خوبیوں سے محروم ہو جاتے ہیں‘اگر ہم ان واضح علامات کے باوجود یہ ماننے سے انکار کریں تو یہ کوتاہ بینی ہوگی۔سماج میں بڑھتا ہواعدم برداشت اور جرائم لوگوں کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ معاشی مسائل کس طرح سماج کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں یعنی معیشت کا تعلق صرف کمانے‘خرچ کرنے اور خریدنے کی استطاعت سے ہی نہیں بلکہ سماجی توانائی اور ربط بھی اسی کی مرہون منت ہے‘عوام خوشحال ہو تو سماج مطمئن اور اخلاقی قوت سے بھرپور ہوتا ہے‘مفلس اور روٹی روزی کی بے یقینی سے دوچار ہو تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے‘ پھر اس کے اثرات عام آدمی تک محدود نہیں رہتے، سوال یہ ہے کہ ماحول، زمین، افرادی قوت، معدنی دولت غرض ہر لحاظ سے قدرت نے پاکستان کو انمول بنایا ہے خطے میں بہت کم ممالک ایسے ہوں گے جو ان اوصاف میں ہمارا مقابلہ کر سکتے ہوں، مگر ہم اپنے قدرتی وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔کیونکہ ماضی میں حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہاایک حکومت کا رخ اگر شمال کی طرف تھا تو دوسری جنوب کا رخ کر لیتی تھی، اب کہیں جاکر موجودہ حکومت نے ایسے منصوبے شروع کئے ہیں جن کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے قبل تو ہر حکومت کی یہی کوشش رہی کہ وہی منصوبے شروع کرے جو ان کے دور حکومت میں مکمل ہوں اور کوئی اور اس کی تکمیل کا کریڈٹ نہ لے۔تاریخ عالم کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہی ممالک اور اقوام کامیاب ہوئے، جنہوں نے مستقل بنیادوں پر جد وجہد کی۔ حکومت کے آنے جانے سے جن کے رخ اور لگن تبدیل نہیں ہوئے‘ کسی جماعت کی حکومت چند برس کے لیے آتی ہے، مگر قومی اور ملکی تعمیر وترقی دیرپا اور مستقل منصوبوں کا تقاضہ کرتی ہے، ملکی تاریخ کے 75ویں برس میں ہمیں اس کی سمجھ آ جانی چاہئے، ہم دوسروں کو دیکھ کر ہی کچھ سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں، قومیں اپنے رہنماؤں کا گلہ ہوتی ہیں، یہ ذمہ داری رہنماؤں کی ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے حالات دیکھ کر کچھ سبق حاصل کریں اور قوم کی رہنمائی کا حق ادا کریں‘سیاست اور امور جہان بانی میں صرف قوم اور ملک کا مفاد پیش نظر رہنا چاہئے،  اور اسی صورت میں ہی ملک ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور اس سے سماجی سطح پر جو مثبت اثرات سامنے آئیں گے اس  سے یقینا جمہوری نظام بھی مضبوط ہو گا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کا فائدہ ہے۔