بشارت کھوکھ
حکومت کے ادارہ شماریات نے فروری کے تیسرے ہفتے کی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق اس ہفتے کے دوران 28 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ایک برس پہلے کے مقابلے میں ٹماٹر کی قیمت میں 323 فیصد اضافہ ہوا، لہسن کی قیمت میں 61 فیصد، کوکنگ آئل کی قیمت میں 42 فیصد، بناسپتی گھی کی قیمت میں 39 فیصد، بجلی 65.79 فیصد، پیٹرول 42 فیصد، اور ہائی سپیڈ ڈیزل 32.26 فیصد مہنگا ہوا، یہ صرف ایک سال پہلے فروری کے تیسرے ہفتے کی قیمتوں اور موجودہ قیمتوں کا تقابلی جائزہ ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ بتاتی ہے کہ مہنگائی کی مجموعی شرح اگرچہ 18.09 فیصد ہے، مگر 17732 روپے تک ماہانہ اخراجات کرنے والے کیلئے یہ شرح 19.40 فیصد ہے، یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ فروری کے وسط میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے اثرات اگلے ہفتے کی رپورٹ میں ظاہر ہوں گے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں اور بجلی سمیت ہر شعبے اور ضرورت کی چیز پر اس کے خطرناک اثرات ظاہر ہوں گے، ڈیزل اور پیٹرول کے نرخ میں معمولی اضافہ ہو تو بار برادری کے اخراجات اور قیمتوں پر زیادہ اثر نہیں ڈالتے، مگر 12 روپے تک قیمت بڑھ جائے تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی، لہٰذا رواں ہفتے کے دوران کرایوں اور اس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ جاری ہے، اس کا دوسرا اثر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے گا، بجلی کی قیمتوں میں پہلے ہی ہر ماہ اضافہ معمول بن چکا ہے، سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے جنوری کے مہینے میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں نیپرا کو 6 روپے 10 پیسے بجلی کی قیمت بڑھانے کی درخواست دی تھی، دسمبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ میں بھی 3 روپے 9 پیسے اضافہ کیا گیا تھا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے نتیجے میں بجلی کی قیمتوں میں پہلے سے کئی گنا بڑے اضافے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ان حالات میں عوام مکمل طور پر بے چارگی اور بے بسی محسوس کرتے ہیں، وہ مہنگائی کے خلاف واویلا تو کرتے ہیں، مگر مہنگائی کا سلسلہ کہیں رکتا نظر نہیں آتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دوران ریکارڈ ٹیکس ریونیو حاصل ہو نے کی بھی خبریں آرہی ہیں مگر عوام کی ضروریات زندگی پر عائد ٹیکسوں سے عوام کی زندگی میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی، اس مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ہدف سے زیادہ ٹیکس جمع ہوئے، مگر ان زیادہ وصولیوں کے بدلے میں عوامی سہولیات میں بہتری سے ہی عوام کی تسلی ہوگی۔ ٹیکسوں کے اس یکطرفہ اضافی بوجھ نے معاشی سرگرمیوں کی کوئی مدد نہیں کی، بلکہ اس کا الٹا اثر ہوا ہے، کساد بازاری میں اضافہ اور پیداواری کھپت میں کمی ہورہی ہے، بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کم ہوتی آمدنی کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ قوت خرید میں کمی ہوگئی ہے، اور اس کے اثرات حکومت کے ریونیو اہداف میں ناکامی کی صورت میں بھی سامنے آ سکتے ہیں، دسمبر 2021 اور جنوری 2022، دونوں ماہ ایف بی آر ماہنامہ وصولیوں کے اہداف حاصل نہیں کر سکا،اشیا پر جی ٹی ایس کی اضافی شرح لاگو کرکے یا جی ایس ٹی کا استثنی ختم کر کے اس کمی کو ختم کیا جاسکتاہے مگر اس کا بھی بوجھ اگر عوام پر پڑے تو پھر مسئلے کا یہ حل بھی مشکل ہے۔ لے دے کے ٹیکسٹائل کی برآمدات پر بات آتی ہے، مگر اکیلی ٹیکسٹائل کیا کرے، 22 کروڑ آبادی والا ملک اور ایک برآمدی شعبہ، کورونا کی وبا عالمگیر مندی کا سبب بنی، مگر ہمارے مسائل کورونا سے بڑھ کر ہیں، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کو مثبت اشارہ سمجھا جا سکتا ہے تاہم ملک کی معاشی حالات کا اصل پیمانہ عوام اور بازار میں روزمرہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں توازن ہی ہو سکتا ہے، اگر یہ توازن بگڑ جائے تو سرکاری اعداد و شمار اس کا متبادل نہیں ہو سکتے ہیں، نہ ان سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ اگرچہ عالمی سطح پر بدترین کساد بازاری اور معاشی بدحالی کے باوجود پاکستان میں مہنگائی کی شرح بہت سے ممالک کے مقابلے میں کم ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے کئی چیزوں پر حکومت سبسڈی دے رہی ہیں تاہم اب بھی مزید اقدامات کی گنجائش موجود ہے۔