خالد
موجودہ دور میں بجلی کی جو اہمیت ہے اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔بجلی حاصل کرنے کے ذرائع میں سب سے سستا ذریعہ پانی سے بجلی حاصل کرنا ہے۔ پاکستان کو قدرت نے ایسے مواقع فراہم کئے ہوئے ہیں کہ یہاں بڑی آسانی سے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کربجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ہمارے دریا اور ندی نالے جن پہاڑی علاقوں سے گزر کر آتے ہیں ان میں بہت سی جگہوں پر پانی کو تھوڑا سا موڑ دے کر اُسے بلندی سے نیچے گرایا جا سکتا ہے اور یہی گراوٹ ہمیں ٹربائن چلانے میں معاون ہو سکتی ہے۔ ہمارے دریاؤں اور ندیوں پر جو ہزارہ اور آزادکشمیر یا سوات وغیرہ کے علاقوں میں ہیں ان پر بہت سی جگہوں پر ہم پانی کوبلندی سے نیچے گرا سکتے ہیں۔ ہماری ندیوں پر جگہ جگہ جو پن چکیاں بنائی گئی ہیں وہ اسی اصول کے تحت ہیں کہ بلندی سے پانی کو نیچے گرایا جاتاہے اور اُس سے ہماری پن چکیاں چلتی ہیں۔ ان ہی پن چکیوں کے اصول پر اگر ہم بجلی کے ٹربائن لگا لیں تو ایک محدود ایریا کے لئے ہم بجلی پیدا کر سکتے ہیں ا ور یہ ہمارے دریاؤں اور ندیوں پربہت سی جگہوں پر آسانی سے بنائی جا سکتی ہیں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض گاؤں والوں نے اپنے علاقے میں یہ کام کر رکھا ہے۔ اگر یہ کام حکومتی سطح پر کیاجائے تو بہت سے علاقوں کو روشن کیا جا سکتا ہے اور اس طرح سے بجلی کے ذرائع سے (یعنی منگلا اور تربیلا ڈیم سے) حاصل ہونے والی بجلی پر دباؤ کم کیا جا سکتا ہے اور یہ اضافی بجلی ہمارے اور بہت منصوبوں میں کام آسکتی ہے اور ہم جو تیل وغیرہ سے مہنگی بجلی حاصل کرتے ہیں اُس سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ اس لئے کہ سب سے سستا ذریعہ بجلی حاصل کرنے کا آبی ذریعہ ہی ہے اور ہمارے ہاں اس کے بہت زیادہ مواقع ہیں اس سے ہم تیل سے حاصل کی جانے والی بجلی سے بچ سکتے ہیں۔ہمارے ہاں دریاؤں پربندباندھ کر پن چکیاں چلائی جا رہی ہیں اور جو پانی پن چکی کو چلا سکتا ہے وہ بجلی کے ٹربائن کو بھی چلا سکتا ہے اور یوں ہم بہت سی بجلی آسانی سے نہایت کم قیمت پر حاصل کر سکتے ہیں اور یوں بجلی کا بحران بھی کم ہو سکتا ہے۔ ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے۔ جب ہمیں قدرت نے بلندیوں سے آنے والے دریا فراہم کئے ہیں اور ان پربہت سی ایسی جگہیں بھی فراہم کر رکھی ہیں کہ جہاں ہم پانی کو روک کر پن چکیاں چلارہے ہیں وہاں ہم بجلی بھی پیدا کر سکتے ہیں اور وافر مقدار میں حاصل کرسکتے ہیں تو پھر کیوں نہ اس طرف توجہ دی جائے‘اس پر غور کیا جائے‘ہزارہ، سوات‘دیر اور پختونخوا کے دیگر علاقوں، بلوچستان اور آزاد کشمیر کے علاقوں میں بلندیوں سے آنے والے دریاؤں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ہمارے ماہرین ہمیشہ وقتی لاگت کوپیش نظر رکھتے ہیں اور اُس فائدے کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو ایک طویل مدت کے لئے کسی منصوبے سے حاصل ہو نے والا ہوتا ہے۔