بدعنوانی اور غربت کا تعلق اور تیسری دنیا کا المیہ

وزیراعظم عمران خان نے ماسکو روانگی سے قبل ایک روسی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دنیا کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے بدعنوانی اور غربت کے تعلق کا بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ ہمارا سب سے بڑا چیلنج اپنی عوام کو زندہ رہنے کے حالات مہیا کرنا ہے، جس کیلیے اقوام عالم میں تجارت کے وسیع امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، انہوں نے عالمی سطح پر گروپ بندی کا بھی ذکر کیا کیونکہ عالمی حالات کا ذکر اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، خاص طور پر ان حالات میں جب یوکرین کا معاملہ خدشات کی نسبت زیادہ تیزی سے شدت اختیار کرتا جارہا ہے، جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا ہے، دنیا کو ماضی میں عالمی دھڑے بندی اور سرد جنگ میں جو کچھ دیکھنا پڑا ہے، اس کی ایک نئی صورت کا سامنا ہے، وزیراعظم عمران خان کے انٹرویو کے خاص نکات کی بات کی جائے تو بد عنوانی اور غربت کے تعلق کو جس طرح انہوں نے اجاگر کیا، یہ پہلی دفعہ نہیں ہے، وہ اقوام متحدہ کے فورم پر بھی اس معاملے کو اٹھا چکے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے برائے منشیات و جرائم اور انٹرنیشنل منی لانڈرنگ انفارمیشن نیٹ ورک کی رپورٹ بھی اس صورتحال کی تشویش کو نمایاں کرتی ہے، دنیا بھر کے ممالک خاص طور پر تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک جس کا سامنا کر رہے ہیں، ورلڈ اکنامک فورم کے اندازے کے مطابق بدعنوانی کا عالمی حجم 26 سو ارب ڈالر یا عالمی جی ڈی پی کے پانچ فیصد کے برابر ہے، جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق کاروباری افراد ہر سال ایک ارب ڈالر رشوت میں دیتے ہیں، اس لعنت سے ساری دنیا متاثر ہے، مگر تیسری دنیا اور پہلی دنیا کے مسائل میں یہاں بھی فرق ہے کہ بدعنوانی سے لوٹی گئی تیسری دنیا کی دولت کا بڑا حصہ پہلی دنیا کی ٹیکس ہیونز اور ناجائز دولت کی آماجگاہوں میں پہنچ جاتا ہے یا وہاں رئیل اسٹیٹ اور دوسرے کاروباروں میں چھپا دیا جاتا ہے، دولت کے انخلا کے پیچھے غربت کی دھول اڑتی ہے اور مسائل کے لق دق صحرا رہ جاتے ہیں۔ ہم پاکستان میں اس وسائل اور دولت کے انخلا کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں، اسی طرح ہمارے جیسے دیگر ممالک بھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ تیسری دنیا کے جن ممالک سے دولت نکل کر ٹیکس ہیونز یا ناجائز دولت کی آماجگاہوں میں منتقل ہوئی، وہ اتنے ہی معاشی عدم استحکام سے دوچار ہیں، مگر ایسا نہیں کہ ان مسائل کا ادراک پہلی دنیا کی حکومتوں اور اداروں کو نہیں، لیکن اس کی روک تھام کے حوالے سے کوئی قدم اٹھانے کے لیے جس طرح کی عالمی ہم آہنگی کی ضرورت ہے، گروپوں میں تقسیم اور مفاد میں جکڑی اس دنیا میں وہ اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا، نہ ہی سردست ایسا ہوتا نظر آرہا ہے، چنانچہ ٹیکس ہیونز اور ناجائز دولت کی آماجگاہوں پر تعاون کی اپیلیں کرنے کی بجائے، بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے مسائل سے دوچار دنیا کو اپنے طور اور اپنی سطح پر موثر اقدامات یقینی بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہم یکطرفہ طور پر ٹیکس ہیونز اور ناجائز دولت کی آماجگاہ کو اپنی معاشی مسائل اور غربت کا ذمہ دار قرار دے کر کچھ حاصل نہیں کر سکتے، کچھ ہماری ذمہ داریاں بھی ہیں، جب تک وہ پوری نہیں ہوتیں، جب تک ہم خود ہی اپنی مدد نہیں کرنا چاہتے، عالمی سطح کی بدعنوانی کو تیسری دنیا کے مسائل کا ذمہ دار قرار دینا اصولی طور پر درست ہے، مگر تیسری دنیا کی غیر فعالیت اور اس چنگل سے اپنی جان چھڑانے میں ناکامی کا کیا علاج ہے، ہم اپنے ملک کے حالات میں رہ کر دیکھیں تو کون سی دولت ہے جو اس ملک میں نہیں، افرادی قوت، معدنی وسائل، مربوط جغرافیائی اہمیت اور علاقائی و عالمی سطح پر مضبوط تشخص پاکستان کے انمول اثاثے ہیں، مگر ہم ان سے کس حد تک استفادہ کر رہے ہیں، کیا ہمارا نوجوان صف اول کی دنیا جتنا کارآمد ثابت ہورہاہے، صلاحیت اپنی جگہ، مگر افرادی ترقی کے وسائل اور مواقع کی کمی کی وجہ سے ہم پسماندہ ہیں، 0.55 ہیومن ڈویلپمنٹ ویلیو انڈکس کے ساتھ پاکستان ایچ ڈی آئی پر 189 ممالک میں 154 ویں نمبر پر ہے جو اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے۔