یوکرین جنگ‘ ایک سنگین مگر سبق آموز المیہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم کے دورہ روس کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان کسی عالمی دھڑے بندی کا حصہ نہیں بنے گا، صرف پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھا جائے گا ان کا کہنا درست ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے ساتھ یوکرین کے اچھے تعلقات ہیں اور روس کے ساتھ تعلقات کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، اس لئے پاکستان ان حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا، یہ چونکہ دو ہمسایہ ممالک میں کشیدگی کا مسئلہ ہے، اس لیے پاکستان کیلئے زیادہ تشویش کا باعث ہے، وزیراعظم نے بھی اس تشویش کا اظہار ماسکو میں کر دیا تھا، دراصل واقعات جس طرح وقوع پذیر ہوئے پاکستان کو ایسی توقع نہیں تھی، پاکستان کو امید تھی کہ سفارت کاری کے ذریعے امن کو موقع مل سکے گا، مگر جو ہوا اس کے برعکس ہوا، تاہم اس صورتحال نے راتوں رات جنم نہیں لیا، یہ تصادم کئی سال کی بد اعتمادی، شبہات اور خواہشات کا نتیجہ ہے، اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ منسک امن معاہدہ بھی یوکرین اور روس میں پائیدار امن کے قیام میں کامیاب نہیں ہوسکا، اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر عائد نہیں کی جاسکتی بہرحال یہ امر مخفی نہیں کہ یوکرین روس کے ان خدشات کا ازالہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جو مغربی اتحاد کی طرف سے روس کو لاحق رہے، منسک معاہدہ دونوں ممالک میں جنگ بندی اور فرنٹ لائن سے بھاری ہتھیاروں کے انخلا، جنگی قیدیوں کی رہائی اور ڈوبناس کے مخصوص علاقوں کی خودمختاری تسلیم کرنے کیلئے آئینی اصلاحات کا تقاضہ کرتا ہے.

فریقین اس معاہدہ پر عمل کرنے میں ناکام رہے، 2014 سے یہ امن معاہدہ غیر یقینی اور غیر سنجیدگی کے حصار میں رہا، طویل تاریخ کو مختصر کرتے ہوئے گزشتہ ایک سال کے واقعات کا اندازہ کیا جائے تو کیف کی بیدلی اور غیر سنجیدگی واضح طور پر سامنے آتی ہے، یہاں تک کہ صدر زیلنسکی کو جب ڈوبناس کی خود مختاری، ری پبلکس کے رہنماؤں سے بات چیت کی تجویز دی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گردوں سے بات چیت نہیں کریں گے، یہ گزشتہ برس اپریل کا واقعہ ہے، اس دوران یوکرین نے ڈوبناس کے علاقے میں امریکہ کی طرف سے سپلائی کیے گئے ٹینک شکن میزائلوں کی تنصیب اور ترک جنگی ڈرون کو کام میں لا کر مزید شبہات کو ہوا دی، جبکہ رواں سال جنوری میں یوکرین کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکرٹری نے یہ کہہ کر منسک امن معاہدے کی دھجیاں اڑا دیں کہ اس معاہدے کی تعمیل کا مطلب یوکرین کی تباہی ہے اور بعد کے حالات ہمارے سامنے ہیں کہ کس طرح روسی افواج کا سرحدوں پر اجتماع اور بیلاروس میں جنگی مشقوں کا انعقاد ہوا، اور ساتھ ساتھ امریکی صدر جو بائیڈن کی رننگ کمنٹری کہ روس کب حملہ کرے گا، کیسا المیہ ہے کہ امریکی اور یورپی ماہرین اور ادارے جس تصادم کو ناگزیر قرار دے رہے تھے، اسے روکنے کے بجائے بھڑکانے کی زیادہ کوششیں ہوئیں، یوکرین کی بدقسمتی ہے کہ اسے اشتعال دلانے والے آج اس کے ساتھ نہیں، اور یوکرین اور روس اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر حالات سے نبرد آزما ہیں، ان حالات میں دنیا اور یوکرین اور روس کو سیکھنے کیلئے یہ بہت سبق ہے، روس کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عسکری قوت اور صنعتی ترقی نے روس کو اس مقام پر پہنچایا اور بلاشبہ اسے دنیا کی تیسری قوت مانا جاتا ہے، مگر کیا یہ عالمی طاقت کو زیب دیتا ہے کمزور ہمسایہ بھائی پر چڑھائی کردے، روس کے دفاعی نقطہ نظر میں یہ کاروائی جتنی بھی ضروری ہو، مگر دنیا میں اسے ایک جارح قوت کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جس سے کمزور ہمسائے محفوظ نہیں، یوکرین کیلئے انتہائی تکلیف دہ حالات میں یہ سبق ہے کہ جن مغربی ممالک کے اشتعال دلانے پر اس نے منسک معاہدے میں امن کے ایک بڑے موقع کو گنوا دیا، یہ کوتاہ بینی کا نتیجہ ہے کہ یوکرین نے اپنے لئے طے کرلیا ہے کہ وہ اپنے بے اعتبار مغربی ساتھیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا رہے گا، یوکرین کا پائیدار مستقبل روس کے ساتھ پائیدار امن میں ہے، یہی مشرقی یورپ کو مزید تقسیم اور عدم استحکام سے روک سکتا ہے.

دنیا کیلئے صورت حال میں بنیادی سبق یہ ہے کہ عالمی امن نازک موڑ پر ہے،چنانچہ اس جلتی پر تیل ڈالنے کے بجائے جہاں تک ہو سکے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی جائے، مغربی عسکری اتحاد کیلئے اس صورتحال میں سبکی ہی سبکی ہے، نیٹو کی ذمہ داری تھی کہ وہ یورپ کو مسلح تصادم کے خطرات سے محفوظ رکھتا، مگر یوکرین میں تصادم کو ہوا دے کر نیٹو نے پوری کوشش سے یورپ کے دروازے تک جنگ کی آگ کو پہنچا دیا ہے، یہ اقدام کسی معقول عسکری اتحاد کی حکمت عملی اور دانش سے بعید ہے۔ اب جو تلواریں نکل چکی ہیں تو سب کی ذمہ داری ہے کہ انہیں واپس نیام میں ڈالنے کا اہتمام کریں، پتا نہیں مغرب سے یہ امید کی جانی چاہیے یا نہیں، مشرق ہی کوشش کرکے دیکھ لے، صدر زیلنسکی کی طرف سے بات چیت کا عندیہ اور روس کی جانب سے مشروط آمادگی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ آتش و آہن کا یہ کھیل جلد رک جائے گا، مگر اس سلسلے میں خطے کے ممالک کی ذمہ داریاں اہم ہیں، سابق سوویت یونین کی ریاستیں اور روسی فیڈریشن مثالی تعلقات کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں، باہمی معاہدے ہیں اور اختلافات کبھی بھی کشیدگی تک نہیں جاتے، مگر یوکرین نے جو راہ چنی ہے، اس میں مشرقی یورپ اور ایشیا کے سارے خطے کے لیے تشویش ہے، دنیا کا یہ حصہ توانائی کا مرکز ہے اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ترقی کی لازمی ضرورت ہے، وزیراعظم عمران خان کے دورے کا ایک بنیادی مقصد یہی تھا کہ روس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں شراکت داری کی بنیاد رکھی جائے، گزشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ روس گوادر میں ایل این جی ٹرمینل لگانے کا خواہاں ہے، بلکہ اس سے کئی قدم آگے بڑھتے ہوئے وسطی ایشیا سے براستہ افغانستان پائپ لائن بچھائی جائے، یہ منصوبہ دراصل بڑے خواب ہیں، جن کی تعبیر پرامن اور محفوظ ماحول میں ممکن ہے۔