اگر سابقہ عالمی جنگوں پر نظر دوڑائی جائے تو اسی طرح کی بات سے جنگ کا آغاز ہوتا ہے کہ ایک ملک اپنے سے کمزور ترین ملک پر حملہ کردیتا ہے اور اُس کمزورترین ملک کی امداد کو دوسرے بڑے ممالک اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی جنگ کا دائرہ پوری دنیا کے گرد پھرجاتا ہے۔ اس وقت جنگ کا آغاز روس کی طرف سے ہو گیاہے چاہے اس کی وجوہات جو بھی ہوں مگر اس نے ایک کمزور ملک پر دھا وا بول دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یورپین ممالک اور امریکہ اس ملک کی امداد کو نکل کھڑے ہوں گے اور پھر وہی ہو گا جو اس سے قبل ہوتا آیا ہے۔ اس دفعہ کی جنگ میں ایک مختلف بات یہ ہو گی کہ مخالف ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اوربڑی تعداد میں ہیں۔روس کے پاس ایک بڑا ذخیرہ ایٹمی ہتھیاروں کاہے اور اس کے مقابلے میں امریکہ اور دیگر مخالف ملکوں کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں اورایٹمی ہتھیاروں کا اثر تو ہم نے دیکھا ہوا ہے کہ جاپان جب پوری دنیا کو فتح کرنے نکلا ہو تھا اور وہ ہندوستان تک پہنچ آیا تھا کہ دو ایٹم بموں نے اُس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا اور اس کے بعد جاپان نے کبھی بھی جنگ کا نام تک نہیں لیا اور اپنی ساری توجہ اقتصادیات کی طرف مبذول کر لی اور دنیا کا سب سے بڑا اقتصادی ملک بن گیا اور آج اگر ہم اپنے گھروں میں دیکھیں تو کئی ایک روز مرہ استعمال کی چیزیں جاپان کی بنی ہوئی ہیں اور تقریباً ساری دنیا میں جاپانی مال کی مانگ ہے اور گھریلو استعمال کی اشیاء ساری دنیا میں جاپان سے منگوئی جا تی ہیں۔ وہ ملک جو ساری دنیا کو فتح کرنے نکلا تھا اور اوربڑی تیزی سے فتح کی جھنڈے گاڑتا ہوا ہندوستان کی سرحدوں تک پہنچ آیا تھا اُس نے جب ہتھیاروں کی شکست کھائی تو اقتصادیات کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر دنیاکو فتح کرنے نکل کھڑا ہوا اور اس میں بڑی حد تک کامیا ب بھی ہوا۔یہی وجہ ہے کہ آج ہم ا پنے گھروں میں دیکھیں تو بہت سی روز مرہ کے استعمال کی چیزیں جاپان کی بنی ہوئی ہیں۔ آج کی دنیا پرنظر دوڑائیں اور حالات کو سابقہ تناظر میں دیکھیں تو روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا ہے۔ یو کرین روس کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹا ملک ہے۔ یوکرین کی امداد کو سارا یورپ تیار ہے اس لئے کہ یورپ دیکھ رہا ہے ہ اگر وہ اس قضیے پر خاموش بیٹھتا ہے تو پھر روس کا انگلستان تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا اور امریکی مفاد کو جو نقصان پہنچ سکتا ہے وہ بھی اس سے آگاہ ہے اس لئے روس کو روکنے کی کوشش تو ضرور کی جائے گی اور جب یہ کوشش ہو گی تو اس کے بعد ضرورت تو اس بات کی ہے کہ سارے بڑے ممالک حوصلے سے کام لیں اور اس آگ کوبجھانے کیلئے امن کی راہ پر چلیں تاکہ یہ آگ اگر خدا نخواستہ پھیل گئی تو دنیا کا کوئی ملک بھی اس سے محفو ظ نہیں رہے گا۔ اسلئے کہ سارے ملکوں کے مفادات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ کچھ ممالک روس کی حمایت میں اور کچھ یورپ اور امریکہ کی حمایت میں نکل کھڑے ہوں گے اور اس کے بعد جو ہو گا اُس کا سو چ کر بھی خوف آنے لگتا ہے اسلئے کہ جنگ پھر روایتی ہتھیاروں سے نکل کر ایٹمی ہتھیاروں تک چلی جائے گی اور آج کل کے ایٹم بم ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور ہیں او رآج بیشتر ممالک ایٹمی قوت رکھتے ہیں اور خدا نخواستہ جنگ چھڑ جاتی ہے اور ایٹمی ہتھیار استعمال ہو جاتے ہیں تو دنیا میں کیابچے گا۔ ایٹم بم تو کسی بھی ذی روح کو سانس لینے کو نہیں چھوڑے گا اسی لئے قومیں ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال نہ کرنے کے معاہدے کرتی پھرتی ہیں۔ مگر آج کل کی جنگ ایک ایسی بلا ہے کہ جب یہ مسلط ہو جاتی ہے تو پھر کوئی ملک بھی اپنی صلاحیت کو سنبھال کر نہیں رکھے گا بلکہ اسے استعمال کرنے پر مجبور ہوگا۔ اسی لئے اس بات کی ازحد ضرورت ہے کہ جنگ سے اجتنا ب کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ جو روس اور یو کرین میں آگ بھڑک اٹھی ہے اس کو پوری دنیا مل کربجھانے کی کو شش کرے ورنہ اس کا نتیجہ دیکھنے کو کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔