ترجیحات کا تعین

گزشتہ شام وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں عوامی مفاد کیلئے تین اہم اقدامات اٹھائے، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر کمی، بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان اور آنے والے بجٹ تک بجلی و پٹرولیم کی قیمت میں اضافہ نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے، موجودہ حالات میں جب روس یوکرین جنگ کی وجہ سے شدید عالمی تناؤ اور بے یقینی کی صورتحال میں توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کا رجحان ہے اور پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا، یہ تخفیف بڑا ریلیف ہے، اس اقدام سے گزشتہ ماہ کے دوسرے ہفتے کے دوران قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے اثرات میں کمی آ جائے گی، اگلے تین ماہ پیٹرولیم اور بجلی کے نرخ منجمد رہے تو عوام کو اچھا ریلیف مل جائے گا۔ 
یہ درست ہے کہ ہم توانائی درآمد کرتے ہیں اور عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ منسلک ہیں، مگر اس کے اثرات کم کرنے کے لیے جو حکمت عملی کار آمد ہو سکتی ہے، ہمارے ہاں اس کا بھی خیال نہیں کیا جاتا، مثلا تیل کے وسیع محفوظ ذخائر ہوں تو ان سے عالمی مارکیٹ کے فوری اثرات کم کیے جا سکتے ہیں، اسی طرح گیس کے پیشگی سودے سے نسبتا سستی گیس حاصل ہو سکتی ہے اور بوقت ضرورت ہنگامی حالات میں مہنگی توانائی کی خریداری کا بہتر حل نکل سکتا ہے۔ہمیں توانائی کے نسبتاً سستے وسائل پر انحصار بڑھانے کی بھی ضرورت ہے، ہمارے ملک میں سورج کی روشنی اور پانی کی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع امکانات ہیں، مگر ان قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے ماضی میں تیل اور گیس جلا کر ہی بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کئے گئے اور یہ ہرگز دانشمندی نہیں تھی، بڑے ڈیموں کی بجائے چھوٹے ڈیم اور رن آف ریور طرز کے بجلی کے پیداواری منصوبے ہماری ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔
 یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے اس منزل کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے، اسی طرح شہری اور دیہی آبادی میں اگر دفاتر اور سرکاری ادارے شمسی توانائی پر منتقل ہو جائیں تو اس سے بجلی کے اخراجات میں خاطرخواہ کمی ممکن ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں توانائی کی قیمتوں اور عالمی رجحانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اپوزیشن کے پاس اس کا کوئی حل ہے تو بتائیں، مگر حل موجود ہیں اور وہ توانائی کے متبادل اور ماحول دوست وسائل ہیں، حکومت نے گھروں کی تعمیر سے لے کر انفرادی سطح تک قرضوں کے متعدد منصوبوں کے اعلان کر رکھے ہیں اور یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ موجودہ حکومت پہلی حکومت ہے جو عوام کو قرض دلوانے میں خود دلچسپی لیتی ہے، تاہم ان حالات میں جب بجلی کے بل تقریبا ًہر پاکستانی کے لئے پریشانی کا سبب ہیں۔
 حکومت اگر شمسی توانائی کے چھوٹے گھریلو سطح کے پیداواری یونٹوں کی حوصلہ افزائی کرے اور عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرائے تو یہ لوگوں کیلئے اطمینان کا باعث ہوگا، رن آف ریور طرز کے منصوبے، جو دریاؤں کے علاوہ بڑی نہروں پر بھی قائم کیے جا سکتے ہیں، اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ ہیں وہ حل جنہیں حکومت یقینی بنائے تو توانائی کی قیمتوں کو اعتدال پر لایا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح عوام کو مستقل ریلیف مل سکتا ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے بی اے تک تعلیم یافتہ طلبا کیلئے انٹرن شپ کے تیس لاکھ مواقع فراہم کرنے کا اعلان بھی خوش آئند ہے، جس ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو، اسے اپنے اس اثاثے پر فخر کرنا چاہئے، مگر نوجوانوں کی قابلیت ہی ان کی صلاحیتوں سے استفادہ یقینی بنا سکتی ہے، اس لیے انہیں تعلیم و تربیت اور ہنر سکھانے کے علاوہ ان کو عالمی مارکیٹ کے ساتھ منسلک کرنا ہوگا۔
 یہ بات خوش آئند ہے کہ وطن عزیز میں اس کا احساس پایا جاتا ہے اور پچھلے کچھ عرصے سے حکومتیں بھی ایسے منصوبے پیش کرتی آ رہی ہیں، اگرچہ یہ ناکافی ہیں اور ابھی تک ان سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑا، موجودہ حکومت کو اس سلسلے میں مزید کوششیں کرنی چاہئے، ایسے منصوبوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری ضائع نہیں ہوتی، بشرطیکہ شفافیت کو برقرار رکھا جائے اور یہ دکھاوے کیلئے نہ ہوں۔ فری لانسر کی حوصلہ افزائی اور انہیں نئے مواقع حاصل کرنے کیلئے تیار کرنا بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے، جو نوجوانوں کو اجیر سے آجر بننے کی جانب متوجہ کر سکے، اس حوالے سے آئی ٹی کے شعبے کی طرف متوجہ ہونا اور اس شعبے کو ٹیکس چھوٹ دینے کا اعلان کرنا بھی حکومت کا احسن فیصلہ ہے۔ وزیراعظم نے کسانوں کو بلا سود قرضہ دینے کی بات بھی کی ہے جو زرعی ملک کی ضرورت ہے، تاکہ زرعی پیداوار بڑھانے پر اخراجات ہوں اور جو خوراک ہم باہر سے منگواتے ہیں، اس پر زرمبادلہ خرچ نہ کرنا پڑے، مگر کسانوں کو قرض کے ساتھ رہنمائی اور جدید ٹیکنالوجی سے آگاہی بھی ضروری ہے۔ وزیر اعظم کے تمام اعلانات مثبت اور خوش آئند ہیں۔