روس یوکرائن تنازعہ جتنا طویل ہوگا اتنا ہی دنیا کے لئے خطرناک ہوگا، اس وقت متحارب ممالک سے زیادہ امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک کی ذمہ داری ہے کہ جنگ روکنے کے لئے جو کردار وہ ابتدا ء میں ادا کر سکتے تھے و ہ ادا نہیں کیا، اس کی تلافی کریں اور جنگ میں فریق بننے کی بجائے غیر جاندار ثالث کا کردار ادا کریں اور ایسے حالات کی راہ ہموار کریں جو جنگ کے خاتمے کا باعث ہو، ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی مگر کشیدگی بڑھ رہی تھی تو عام دنیا کا خیال تھا کہ روس جیسی بڑی فوجی قوت کے آگے یوکرائن جیسا ملک مزاحمت نہیں کر سکے گا اور چند دن میں کیف کا سقوط ہو جائے گا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یوکرائن کو ہلا شیری دینے اور جنگ کی صورت میں دفاع کی ضمانت دینے والے امریکہ اور یورپی اتحادی بھی روس کے مقابلے میں آنے سے کنی کترا رہے تھے،
جبکہ یوکرائن کے صدر بار بار ان کو وعدے یاد دلا رہے تھے، لیکن حیران کن طور پر یوکرائن کے صدر اور فوج نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کرکے روس کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے، اگرچہ روس اور یوکرائن میں مذاکرات بھی ہو رہے ہیں، مگر کوئی فریق بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور اب تو دنیا میں بھی یوکرائن سے ہمدردی پیدا ہو رہی ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے
خلاف مذمتی قرار داد بھی کثرت رائے سے منظور ہوگئی ہے، پاکستان نے اس قرارداد میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا، قرارداد میں روس سے جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، دوسری جانب امریکہ اور نیٹو نے بھی جنگ میں یوکرائن کی عملی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جبکہ روس نے کسی دوسرے ملک کے جنگ میں ملوث ہونے کی صورت میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ اسلئے دنیا اور بالخصوص با اثر ممالک کو آگے بڑھ کر اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پاکستان نے جو پالیسی اپنائی ہے یہ حالات کے مطابق درست اور ملکی مفاد میں ہے، اس وقت سب سے بڑا کردار قوام متحدہ کا ہے کہ وہ جنگ کو محدود کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ روسی قیادت کو اللہ اس سوچ سے باز رکھیں ورنہ جیتنے کا جشن منانے والا کوئی نہ رہے گا۔