ایف اے ٹی ایف کے اہداف اور پاکستان 

 ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کے حالیہ اجلاس میں بھی اگرچہ پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھا گیا ہے، تاہم اجلاس کے اختتام میں بیان میں پاکستان کی طرف سے انسداد منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کیلئے اٹھائے گئے اقدامات اور سیاسی عزم کو تسلیم کیا گیا ہے، یہ اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے اہداف پورے کرنے میں سنجیدہ ہے، پاکستان کو فیٹف کی طرف سے 2018 میں جو ایکشن پلان دیا گیا تھا، اس کے 27 میں سے 26 اہداف حاصل کیے جا چکے ہیں، جبکہ جون 2021 سے پاکستان نے 7 میں سے 6 اہداف پورے کرلیے ہیں اور ایف اے ٹی ایف کے بیان کے مطابق یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان کے مالیاتی نظام کی شفافیت یقینی بنانے اور دنیا کا اعتبار حاصل کرنے کیلئے جن اداروں نے اس کام میں حصہ لیا، ان کی کوشش اور صلاحیت کی داد دینی چاہئے، یہ کوشش جو اب کامیابی کے کنارے پر کھڑی ہے، اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستانی ادارے جیسا عزم کر لیتے ہیں تو کچھ کر دکھاتے ہیں، مالیاتی نظام کی تطہیر کے جو اہداف حاصل کیے گئے ہیں یا جو ایک دو رہ گئے ہیں، وہ بھی اگلے اجلاس تک مکمل ہو جائینگے۔ ملک میں غیر قانونی طریقے سے دولت لانا یا لے کر جانا پورے مالیاتی نظام کو شبہات کی زد میں لا کھڑا کرتا ہے۔ یہی صورتحال باہر سے رقوم لانے کی ہے، جب کوئی دولت کی آمد اور اخراج کیلئے ناجائز اور غیرقانونی حربے استعمال کر رہا ہے، تو واضح ہے یہ رقم ناجائز طریقے سے کمائی گئی ہے اور ناجائز مقاصد کیلئے لائی یا لے جائی جارہی ہے، ہماری مالیاتی ریگولیشن کے اداروں کیلئے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ان جرائم پیشہ سرگرمیوں کے انسداد کیلئے کوششیں کریں، یہ کوشش ملک میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی روک تھام میں بھی مددگار ثابت ہوگی، یہ الگ بات ہے کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کے حوالے سے الگ اور باقی ممالک کے حوالے سے الگ پیمانہ مقررکیا ہے۔پاکستان کو باجود اچھی خاصی کامیابی کے گرے لسٹ میں رکھنا اس کا ثبوت ہے کہ اس باڈی میں موجود کچھ خاص ممالک یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکلے اور اس کے ساتھ بین الاقوامی لین دین میں آسانی ہو جس کے نتیجے میں وہ ترقی کے منازل طے کرتا جائے۔ امریکہ اور بھارت خاص طور پر پاکستان میں چین کے ساتھ اشتراک کے ذریعے پروان چڑھنے والے منصوبوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کے ارادے اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ان سے یہ کہاں برداشت ہوتا ہے کہ پاکستان مغربی ممالک، امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے نکل جائے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر علاقائی معیشت میں اہم مقام حاصل کر سکے۔اب ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں پھونک پھونک کرقدم رکھنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت کو یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔