نفسا نفسی کا دور

کہتے ہیں کی جوں جوں انسان کو ترقی ملتی ہے تو ں توں اس کا ظرف بڑھتا جاتا ہے۔ اور وہ بہت سی ایسی باتوں کو جو وہ کبھی ساتھ لئے لئے پھرتا ہے اُن سے جان چھڑا لیتا ہے۔بہت سے لوگوں سے جو وہ ایک وقت میں بدلہ لینا چاہتا ہے تاہم جب وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ وہ بدلہ لے سکے تو وہ اُن کو معا ف کر دیتا ہے۔ یہ کسی بھی شخص کے بڑا ہونے کی دلیل ہے اور جب کسی شخص کو اس بات کی توفیق مل جائے کہ وہ اپنے مخالفوں سے بدلہ لینے کی پوزیشن میں آ جائے اور وہ اُن سے بدلہ لینے کی ٹھان لیتا ہے تو یہ کسی بھی طرح اچھی صفت نہیں سمجھی جائے گی۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں اگر کوئی کمی بری طرح محسوس ہورہی ہے تو وہ یہی ہے کہ برداشت، تحمل اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کی روش نہیں رہی۔ لوگوں کے دل چھوٹے ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے سے چھوٹی چھوٹی باتوں پر دشمنیاں کرنے لگے ہیں۔ 
ہمارا یہ رویہ ہر جگہ جھلکتا ہے چاہے وہ بازار ہو، سڑک ہو یا پھر دیگر عوامی مقامات۔ سب سے بڑھ کر سیاست کی دنیا میں برداشت او ر تحمل کا مظاہرہ کرنا اس شعبے کی اولین ضرورت ہے کیونکہ یہاں پر آنے والے ہر کسی کا مقصد عوام کی خدمت ہے اور کہتے ہیں کہ اختلافات خدمت سے نہیں خودغرضی سے جنم لیتے ہیں۔ اچھے لوگ تو وہ ہیں جو اپنے دشمنوں کوبھی گلے لگائیں اور ان کو دوستوں کی صف میں شامل کر یں اوردوست تو دوست ہی ہیں‘ کہتے ہیں کہ یہ برداشت اور کسی غیر کو دوست بنانے کی صلاحیت جس کو ملتی ہے وہ خوش نصیب ہے جسے بڑا خزانہ ملا ہے۔اس وقت ہم میں سے ہر کوئی دوسرے سے آگے نکلنے کی تگ و دو میں ہے تاہم اس دوڑ میں دوسروں کی بھلائی اور فائدے کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد اور اہداف کو ہی نظر میں رکھا جاتا ہے۔ شاید اس تمام مسئلے کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کی طرف توجہ تو پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ دی جاتی ہے اور جس طرف دیکھو تعلیمی ادارے نت نئے کھل رہے ہیں تاہم جس چیز کی کمی ہے وہ تربیت ہے۔
 تربیت کی کمی سے ہی معاشرے میں وہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں زندگی کا مزہ نہیں رہتا اور زندگی ایک طرح سے بد مزگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے بزرگ کس طرح ایک دوسرے سے تعلق رکھنے کیلئے مشکلات کو برداشت کرتے تھے اور صرف ایک دوسرے کو دیکھنے کیلئے طویل سفر کرتے تھے کیونکہ ان کا تعلق دل کی گہرائی سے ہوتا تھا۔ اب تو قریبی تعلق دار سے بھی ملاقات کبھی کبھار ہوتی ہے کیونکہ دلوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔اگر چہ دوسری طرف اتنی آسانیاں آگئی ہیں کہ ایک دوسرے سے تعلق جوڑنا پہلے سے سہل ہوگیا ہے مگر دور کے لوگوں کی خبر تو ہوتی ہے مگرپاس رہنے والے سے ہم بے خبر ہوگئے ہیں۔ جس کو دیکھو اپنی ذات میں قید ہے۔گاؤں کی زندگی تو پھر بھی کسی حد تک ایک دوسرے سے تعلق پر مبنی ہے تاہم شہروں میں تو اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ سالہا سال سے پڑوس میں رہنے والوں کے نام تک نہیں آتے، کسی سے پوچھو کہ فلاں کا گھر کدھر ہے تو جواب ملتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم اور پھر جب گھر کا پتہ معلوم ہوجاتا ہے تو وہ بالکل سامنے کا گھر ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر کوئی اپنے کام کی جگہ پر جاتا ہے اور واپس آکر سیدھا گھر میں گھس جاتا ہے، آس پاس میں کون ہے اور کس حال میں ہے یہ جاننے کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا۔