اس وقت دیکھا جائے تو ہر طرف انتشار ہے۔ چاہے وہ بین الاقوامی منظر نامہ ہے یا پھر ملکی منظرنامہ۔ روس اور یوکرین کی جنگ نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر پہنچا دیا ہے اور یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ نیٹو کسی بھی وقت اس جنگ میں ملوث ہو۔ اگر چہ اب تک امریکہ اورنیٹو نے اپنے آپ کو اس سے بچائے رکھا ہے۔ یوکرین نے نوفلائی زون کا مطالبہ کیا تاہم اسے امریکہ اور نیٹو نے مسترد کیا کہ اگر نو فلائی زون قائم کیا تو اس کی حفاظت کرتے ہوئے پھر روسی اور نیٹو طیارے آمنے سامنے ہوں گے۔ اس طرح یوکرین نے پولینڈ سے جنگی طیارے بھیجنے کا بھی مطالبہ کیا۔ تاہم اسے بھی امریکہ نے رد کیا کہ اگر پولینڈ جو نیٹو رکن ہے جنگ میں ملوث ہوا توپھر اس جنگ کو بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتایعنی اس وقت دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر ہے اور کسی بھی وقت کوئی غلط فیصلہ اس کے آغاز کاباعث بن سکتا ہے۔عالمی سیاست ایک بار پھر سر د جنگ کے ماحول میں داخل ہوگئی ہے اور دنیا کے ممالک ایک بار پھر مختلف بلاکوں میں تقسیم ہونے لگے ہیں۔کوئی روس کاساتھ دیگا تو کوئی امریکہ کا۔ اور اس بار تو چین بھی مقابلے میں موجود ہے۔ جس نے معاشی ترقی اور اپنے آپ کو جنگوں سے دور رکھتے ہوئے ترقی کی وہ منزلیں طے کیں جن کی کوئی خواہش کرسکتا ہے۔اگر یہ بھی اس عالمی چپقلش میں ملوث ہوگیا تو پھر عالمی جنگ کو ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔تاہم اس کے چین کی ترقی پر منفی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔ اب اگر ملکی سیاست کی بات ہو تو کہتے ہیں کہ کسی فقیر کو کسی بات پر ایک امیر آدمی نے پتھر مار دیا۔
فقیر میں اتنی ہمت تو نہیں تھی کہ وہ اُس سے فی الفور بدلہ لیتا اُس نے وہ پتھر جو اُسے مارا گیا تھا اپنے تھیلے میں رکھ لیا اور بغیر کچھ کہے چلا گیا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ امیر آدمی ایک گہرے کھڈ میں گر گیا۔ وہ فقیر بھی کہیں سے ادھر آ نکلا۔ اُس نے دیکھا کہ امیر آدمی اب اُس کو کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اُس نے وہی پتھر اپنے تھیلے سے نکالا اور یہ کہتے ہوئے اُس امیر آدمی کو دے مارا کہ مجھے حالات نے یہ موقع فراہم کر دیاہے کہ میں تجھ سے بدلہ لے پاؤں۔کہنے کامطلب یہ کہ دن کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ آج کا بادشاہ کل کا فقیر بھی ہو سکتا ہے اور آج کافقیر کل کا بادشاہ بھی ہو سکتا ہے۔اور پھر سیاست میں تو کوئی حر ف آخر نہیں۔ آج کی حکومت کرنے والے کل حزب اختلاف میں ہوں گے اور آج کی حزب اختلاف والی جماعت حکومت میں بھی آسکتی ہے۔ اسلئے دونوں طرف یہ احساس ضروری ہے کہ سیاست میں ذاتیات کو ملوث نہیں کرنا چاہئے۔اب ہر مرتبہ اگر حزب اختلاف کا کام یہی ہو کہ وہ حکومت کا خاتمہ کرے اور خود حکومت میں آئے تو پھر کس طرح کوئی حکومت اپنے ایجنڈے اور منشور پر عمل پیرا ہوسکتی ہے۔
جمہوری عمل کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس میں تسلسل ہو۔ ایک جماعت کو حکومت ملی ہے تو اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملے اور وہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں کامیاب رہتی ہے تو عوام اسے ایک با رپھر اس منصب پر فائز کردیں گے دوسری صورت میں کسی اور جماعت کو حکومت کی ذمہ داری سونپ دی جائے گی۔وقت سے پہلے حکومت کے خاتمے کی آئینی گنجائش اگر موجود بھی ہے تو اس سے بہت ہی ضرورت کے تحت استفادہ کرنا چاہئے۔عوامی رائے کی قدر یہی ہے کہ جس کو مینڈیٹ ملے اسے آئینی مدت تک حکومت میں رہنے کا حق ملے۔یہ الگ بات ہے کہ حکومت کو بھی حزب اختلاف کی قدر کرنی چاہئے اور ملکی معاملات میں اگر وہ کوئی اچھا مشورہ دیتی ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔کیا ہی بہتر ہو کہ ہمارے ہاں اب یہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان کشیدگی کا ماحول ختم ہو اور مفاہمت و ہم آہنگی کے ماحول میں ملکی ترقی کا عمل جاری رکھنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی روش چل نکلے۔