موسم مہربانی دکھا رہا ہے اور اب ہوا میں تبدیلی کے آثار محسوس کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے موسم خاصا خوشگوار ہو گیاہے کیونکہ ہوا میں نئی کھلنے والی کونپلوں اور کلیوں کی بھینی بھینی خوشبو شامل ہو گئی ہے اس کے اثرات شہروں میں تو کم کم نظر آئیں گے مگر دیہات اور شہر کے مضافاتی علاقوں میں یہ تبدیلی دل کو سکون اور آنکھوں کو طرارت بخش رہی ہے اور وہ جو عزیز حامد مدنی نے کہا ہے ”تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی“ سو یہی وہ دن ہیں جب باغ کے ساتھ ساتھ دل کی کلی بھی کھلنے لگتی ہے، یہ اور بات کہ ان دنوں ملک کے سیاسی محاذ پر گہما گہمی بہت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں اس معتدل موسم میں بھی گرمی بڑھ گئی ہے اور چہروں پر تناؤ بڑھتا جارہا ہے، چہرے کی حد تک تو خیر مگربات اتنی دور جا نکلی ہے کہ اب تو یار لوگوں کو حیدر علی آتش کی زبان میں یہاں تک بھی کہنا پڑرہا ہے۔
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
بہر حال ان کی وہ جانیں کیونکہ بہت زیادہ جاننے والوں کو کوئی مشورہ بھی تونہیں دیا جاسکتا ح تیٰ کہ رواداری اور برداشت کا مشورہ بھی کوئی ماننے کو کب اور کیوں تیار ہوگا، جس طرح ہر شخص کا اپنا ایک مزاج اور رکھ رکھاؤ ہو تا ہے اسی طرح ہر شخص کا کھیلنے کے لئے اپنا ایک میدان اور اپنا ایک گول ہو تا ہے،پھر کسی ”سیانے“ نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ”محبت اور جنگ میں سب جائز ہے“ یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے جتنی دکھائی دیتی ہے، یعنی صرف دو شعبوں تک محدود نظر آنے والے یہ بیان زندگی کے سارے شعبوں پر محیط ہے کہ ہر شخص کو کسی نہ کسی شے سے یا شعبے سے محبت ہو گی یا پھر اس کے خلاف نبرد آزما ہو گا، گویا انسان ہر وقت کسی نہ کسی محاذ پر محبت یا جنگ کے چنگل میں پھنساہوتا ہے اس طرح سب کچھ کو ہمہ وقت جائز سمجھنے میں وہ خود کو حق بجانب سمجھتا ہے اور یہ کھیل زندگی کے ہر شعبے میں نہ جانے کب سے جاری ہے، بات آمد فصل بہار کی ہو رہی تھی جس کی خبر بھینی بھینی خوشبوؤں سے لدی پھندی ہوا ئیں لے کر آئیں ہیں آتش نے بھی یہی بات کہی تھی
ہوائے دور مئے خوشگوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
اگر ہمارے ہاں کسی بھی محاذ پر کوئی بھی کسی کا مشورہ سننے اور ماننے کا روا دار ہو تا تو میں یقینا یہی مشورہ دیتا کہ سیاست سیاست بعد میں کھیل لیجیئے گا سر دست موسم کا مزہ لے لیجئے عطر بیز ہواؤں کا استقبال کیجئے کیونکہ فصل گل کی آمد آمد ہے، مل بیٹھنے اور مل جل کر دھوم دھڑکا کرنے کا موسم ہے دریا کے کنارے یا پہاڑوں کی قور سفر کا موسم ہے، شعر و ادب کی محافل سجانے کی رت ہے، یہی وہی رت ہے جب کہیں نہ کہیں سے ”بہاریہ مشاعرے“ کی نویدسنائی دیا کرتی تھی۔ اب اس خطے کی حد تک اس کا رواج بھی کم کم رہ گیا ہے، یادش بخیر ایک بار تحصیل گورگٹھڑی کے سرسبز و شاداب لان میں ہونے والی ایک تقریب میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی سے میں نے کہا تھا کہ بہار کی آمد آمد ہے کیا ہی اچھا ہو کہ اسی گورگٹھڑی میں صوبائی حکومت کی طرف سے ایک بہاریہ مشاعرہ کا اہتمام کر لیا جائے،یہ بھی کہا کہ آپ کی حکومت ادب کے لئے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے، بے ساختہ ہنس پڑے اور کہنے لگے اس کام کے لئے ہم نے اپنا ڈپٹی سپیکر اکرام اللہ شاہد وقف کر رکھاہے، اس پر ان کے گرد بیٹھے ہوئے ان کی کابینہ کے ارکان نے خوب قہقہے لگائے، ظاہر ہے اس کے بعد کیسی بہار اور کہاں کا مشاعرہ باقی رہ جاتا ہے، دوست عزیز پشاور پریس کلب کے صدر ریاض احمد نے بھی گورنر ہاؤس کے وسیع و عریض لان میں ایک میٹنگ میں اس وقت کے گورنر مہتاب عباسی کو ایسی ایک تجویز دی تھی، انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ بس ان سے کہہ دیجئے باقی کام یہ خود کر لیں گے، مگر”حکومت کے کام“ اتنے ہو تے ہیں کہ نقار خانے کی اس توانا آواز کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا، بلکہ جب مسعود کوثر خیبر پختونخوا کے گورنر تھے تو انہوں نے مجھے فون کر بلایا اور مشاعرہ ترتیب دینے کو کہا، میں نے اباسین آرٹس کونسل کے مشتاق شباب کے ساتھ مل کر ایک کل پاکستان مشاعرہ اور جشن فراز کا پروگرام بنا کربھیجا۔ پھر ایک دن انہوں نے فون کر کے بلایا، شبلی فراز کو بھی اسلام آباد سے بلایا ہوا تھا ہم نے اس پر کام بھی کیا، گورنر ہاؤس میں دو تین میٹینگز ہوئیں تقریب فائنل بھی ہوئی مگر پھر ایک دو باربوجوہ مؤخر کی گئی مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ وہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی اور پھر پشاور کے قلم قبیلہ کا یہ خواب تب جا کر پورا ہوا جب ڈسٹرکٹ گورنمنٹ پشاور کے مئیر محمد عاصم خان نے ایک شاندار کل پاکستان مشاعرہ کا اہتمام کیا یہ دوڈھائی برس پرانی بات ہے مگر اس کی گونج اب بھی ادبی فضاؤں میں سنائی دیتی ہے، اب پھر بہار کی آمد آمد ہے، دیکھئے اس کے استقبال کے لئے کوئی دل خوش کن آواز کہاں سے اٹھتی ہے، ظاہر ہے یہ کام اب اگر ہو گا تو کسی ادبی تنظیم کی طرف سے ہو گا یا پھر کسی نجی یا غیر سرکاری انجمن کی جانب سے ہو گی کیونکہ سیاسی محاذ پر جو گرمی اور گہما گہمی دیکھنے میں آ رہی ہے وہ محاذ سر دست اس کا متحمل نہیں ہو سکتا، یہ بھی آپ جانیں کہ میں نے ”سر دست“ تکلفاََ لکھ دیا ورنہ سیاسی حلقوں میں سارا سال ایک ہی طرح کا موسم عروج پر ہوتا ہے جس پر کوئی نرم و گداز رنگ چڑھتا ہی نہیں ہے، اس لئے اگر چہ ”موسم خاصا خوشگوار ہو گیاہے کیونکہ ہوا میں نئی کھلنے والی کونپلوں اور کلیوں کی بھینی بھینی خوشبو بھی شامل ہو گئی ہے‘‘ تو ایسے میں کوئی اور بات سنے نہ سنے اپنے کانوں میں تو میر کے شعر کی سر گوشی تو کی جاسکتی ہے۔
چلتے ہو تو چمن کو چلئے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد باراں ہے