عدم اعتماد کی تحریک اس وقت ہر جگہ موضوع بحث ہے کوئی اس کے حق میں بولتا ہے تو کوئی مخالفت میں تاہم ایک بات واضح ہونی چاہئے کہ اپوزیشن نے حکومت کے چوتھے برس میں عدم اعتماد کا جو حق استعمال کیا ہے اس کا حق ان کو آئین دیتا ہے کیونکہ یہ ایک جمہوری ملک کا آئین ہے جہاں اگر حکمران مقرر کرنے کا طریقہ اور قاعدہ موجود ہے تو اس کو رخصت کرنے کا طریقہ بھی موجود ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کو دشمنی اور گستاخی پر محمول کرنا ایک بعید از قیاس بات ہے۔ ظاہر ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ایک طرح سے استغاثہ ہے کوئی حتمی فیصلہ نہیں۔
اگر وزیراعظم کو ایوان کا اعتماد حاصل ہے تو پھر کل کلاں تحریک پر جب رائے شماری ہوگی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔لیکن ایسا دکھائی دینے لگا ہے کہ عدم اعتماد کا جمہوری آپشن حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ذاتی نوعیت کی لڑائی اور دشمنی میں تبدیل ہونے والا ہے۔ ایسے میں کچھ حکومتی وزراء کی جانب سے معاملات کو کشیدگی تک نہ لے جانے اور اسے باہمی مفاہمت سے طے کرنے کی بات بہت وزنی ہے۔ کھل کر ایک دوسرے کے خلاف اپنے ارادوں کا اظہار مناسب نہیں کیونکہ سیاست کے اکھاڑے میں کوئی اپنے پتے اس طرح ظاہر نہیں کرتا۔جمہوری نظام میں حکمرانی سولو فلائٹ نہیں آپ کو ایوان میں اپنے رفقا سے مدد اور تعاون لینا پڑتا ہے اس لئے بہتر ہوتا ہے کہ تعلقات کی نوعیت ایسی رہے کہ ہم آہنگی خارج از امکان نہ ہو جائے۔
ہمارے سیاسی رہنما اختلاف کو دشمنی بنانے سے جس قدر گریز کریں بہتر ہے کیونکہ اس کے برعکس اگر حالات سامنے آتے ہیں تو اس کا ملک، عوام،اور سیاست کو کوئی فائدہ نہیں اور اختلافات کو ایک حد سے آگے لے جانے کی روش کا اب خاتمہ ہونا چاہئے کیونکہ یہی ملک، قوم، سیاست اور سیاستدانوں کے مفاد میں ہے۔اس وقت دیکھا جائے تو عوام کی مشکلات اور مسائل کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرنا از حد ضروری ہے۔ کورونا کے جھٹکوں سے معیشت کو جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ضروری ہے اور ایسا تب ہی ہو سکتاہے جب سیاسی طور پر استحکام ہو اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے۔ اس سلسلے میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کرنا دنیائے سیاست میں بہت ضروری ہے۔ کیونکہ آج کی حزب اختلاف کل کا حکمران ٹولہ ہوسکتا ہے۔
اس لئے ان ممکنات کو مد نظر رکھنا چاہئے اور حکومت بھی اگر کل حزب اختلاف میں ہو تو ان کو بھی اس حوالے سے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہئے۔ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں بلکہ یہ تو کھیل ہے ممکنات اور لچک دکھانے کا۔ ا س لئے بے لچک رویوں سے سیاسی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ وہ مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔جہاں تک عدم اعتماد کی تحریک کا معاملہ ہے تو جیسا پہلے ذکر چکے کہ یہ تو جمہوریت میں ایک عام پریکٹس ہے۔ جس طرح جمہوریت میں حکومت بننے کے کئی طریقے ہیں اس طرح حکومت ہٹانے کے بھی ہیں اور یہ سب جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کیلئے ہیں تاکہ اگر کوئی حکومت حسب منشا پرفارمنس نہ دے سکے تو متبادل تلاش کرنے کے طریقوں پربھی جمہوری انداز میں عمل کیا جائے اور یوں جمہوریت کا سفر جاری رہے۔