تحریک عدم اعتماد

 حکومت نے اپنے چار سال پورے کر لئے ہیں۔ وہ کیسے تھے؟سوال یہ نہیں ہے مگر ا ب جو حز ب ِا ختلاف حکومت کے خلاف عدم ِاعتماد کی تحریک لائی ہے تو یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ حکومت کے خاتمے میں صرف ایک سال رہ گیا ہے۔ اگر حزبِ اختلاف عدم اعتماد کا کھیل نہ بھی کھیلے توبھی حکومت ایک سال بعد خود ہی جانے والی ہے۔ تو یہ تحریک لانے کا کیا فائدہ۔ یہ تو حکومت کو ایک ایساہتھیا ر دینے کی بات ہے کہ جس کو آنے والے انتخابات میں اپنے حق میں استعمال کر سکتی ہے اور اس کو اس کا فائدہ بھی ہونا ہے اس لئے کہ حکومتی پارٹی اس کو اپنی انتخابی مہم میں جیت کے ہتھیار کے طور پر استعما ل کر سکتی ہے کہ ہمیں تو اپنی مدت پوری کرنے ہی نہیں دی گئی ورنہ ہم عوام کیلئے بہت کچھ کر سکتے تھے۔ ایسے میں عوام کی ہمدردیاں ٹھیک ان کے حق میں جا سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کا تو ایک ہی سال رہ گیا ہے ایسے میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔جب حکومت خود ختم ہونے والی ہے تو ایسے میں اس کے خلا ف عدم اعتماد کی تحریک تو اس حکومت کے ساتھ بھلائی کرنے والی بات ہے۔حزب اختلاف کو جس نے بھی یہ مشورہ دیا ہے وہ ہمارے خیال میں حکومت کا خیر خواہ ہے۔وقت تو یہ ہے کہ حزب اختلاف آنے والے الیکشن میں اپنی کامیابی کیلئے کام کرے اور حکومت کے ایسے کاموں کو عوام کے سامنے لائے کہ جو اس حکومت کی کمزوری ہو یا جو کام اس حکومت کے دوران ایسے ہوئے ہیں یا کرنا چاہتی تھی کہ جن کے نتائج عوام کے حق میں اچھے نہیں آئے۔یہ ایسا وقت ہے کہ جس میں دونوں فریقوں کواپنی جیت کیلئے حربے آزمانے ہیں اور عوام کو ایک نے باور کروانا ہے

کہ انہوں نے عوام اور ملک کے فائدے کے ڈھیر سارے کام کئے ہیں‘ جب کہ حزب اختلاف نے حکومت کے کاموں میں کیڑے نکالنے ہیں اور عوام کو باور کروانا ہے کہ جو کچھ بھی اس حکومت کے دور میں کیا گیا وہ عوام اور ملک کیلئے نقصان دہ تھا۔ اگر اس سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو وہ موجودہ حکومت کے حق میں ہوگا اور اگر حکومتی اراکین آئندہ الیکشن میں جاتے ہیں تو اپوزیشن کی طرف سے حالیہ اقدامات کو اپنے دفاع میں استعمال کریں گے۔یہ وہ مرحلہ ہے کہ حز ب اختلاف نے حکومت کے خلاف میدان ہموار کرنا ہے اور حکومتی ارکین نے دوسری پارٹی کے لوگوں کے خلاف عوامی رائے بنانی ہے۔ یعنی موجودہ حالات میں اور ایسے وقت کہ جب حکومت کا ایک سال ہی رہ گیا ہے عدم اعتماد کی تحریک حکومت کے حق میں جائے گی۔یعنی چار سال یہ حکومت کی اور آنے والے پانچ سال کیلئے بھی جیت کی راہ ہموار ہو جائے گی۔اس وقت عدم اعتماد تحریک سے اگر کوئی متاثر ہوتا ہے تو وہ عام آدمی ہے جس کے مسائل حل کرنے کے لئے حکومت کو بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے

اور سیاسی گہماگہمی سے یہ شعبہ بری طرح متاثر ہوتا ہے یعنی عوامی مسائل کی بجائے دیگر امور توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں مہنگائی‘ بے روزگاری اور معاشی مشکلات وہ امور ہیں جن کا حل نکالنے کے لئے حزب اختلاف اور حکومت دونوں کو مل کر کوششیں کرنے پر توجہ دینی ہوگی اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پیش آنے والی واقعات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ان حالات میں قومی سلامتی بھی اولین ترجیح ہے یعنی عدم اعتماد کی تحریک اگرچہ ایک جمہوریت تقاضہ ہے اور کوئی غلط اقدام نہیں تاہم اس کے لئے مناسب وقت کا ہونا ضروری ہے اگر فائدے کی بجائے اس سے نقصان کا اندیشہ ہے تو پھر گریز ہی بہتر ہے۔