محنت کا کوئی نعم البدل نہیں 

کہتے ہیں کہ نقل کوبھی عقل کی ضرورت ہے۔ یار اگر عقل ہی کی ضرورت ہے توکیوں نہ اس عقل کو صحیح کاموں پر لگایا جائے۔ اسے خواہ  مخواہ کیوں نقل کیلئے  استعمال کیا جائے۔ اور عقل ہے تو پھر ہم پڑھ کربھی تو امتحان پاس کر سکتے ہیں۔ نقل  کی ضرورت تو تب پڑتی ہے کہ جب آپ کی عقل اس قابل نہ ہو کہ آپ سبق یاد کر سکیں اور جب آپ سبق یاد کر سکتے ہیں تو پھر نقل کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اب تک ہمیں اس محاورے کی سمجھ نہیں آئی کہ نقل کیلئے عقل کی ضرورت ہے۔ جب آپ کو  قدرت نے عقل جیسی نعمت دے رکھی ہے تو پھر نقل کی ضرورت ہی کیاہے۔ نقل تو جب کرنی ہے کہ جب آپ کی عقل جواب دے جائے۔ یعنی آپ کسی چیز کو یاد کر ہی نہ سکیں اور  جب آپ کے پاس عقل جیسی نعمت موجود ہے تو اس کو نقل کیلئے استعمال کرنے کی کوئی وجہ تو نہیں ہے۔چاہئے تویہ کہ آپ اپنی اس عقل کو نقل کی بجائے سبق یاد کر نے میں لگا دیں تا کہ نقل کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

اگر آپ کوئی کام کر رہے ہیں اور اس کام کیلئے آپ کو کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو مدد حاصل کر لیں کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ اس معاملے میں تکلف کی۔  ہم نے دیکھا ہے کہ امتحانوں میں نقل وہی بچے کرتے ہیں کہ جو عقل کو استعمال کر کے سبق یاد نہیں کرتے کیونکہ  اگر کسی کام کو کرنے کیلئے عقل کو استعمال کرنا ہے تو آپ وہ کام  آپ لازمی طور پر سیکھ سکتے ہیں اور ہاں اگر آپ نے کوئی چیز بنانی ہے تو آپ اُس چیز کے نمونے کو دیکھ کر بنا سکتے ہیں جو منفی سرگرمی ہر گز نہیں۔  اور جہاں تک امتحانوں میں نقل کی ضرورت کی بات ہے تو جوبھی طالب علم نقل کرتا ہے وہ  تو صرف کاغذ سے سوال  کے جوا ب کو دیکھ کر لکھتاہے ا س کیلئے عقل کا کیا دخل ہے۔ کاغذ سامنے ہے  اورآپ اُس کو دیکھ دیکھ کر لکھ رہے ہیں۔  اتنی سی بات ہے کہ چور آنکھ سے اس بات کا خیال کر تاہے کہ ممتحن کی نظر  نقل والے کاغذ پر نہ پڑے  اگر ایساہو گیا تو ممتحن نے کاغذ لے لینا ہے

اور پھر  صرف ٹھندی آہیں ہی بھرنی ہیں اور اگر آپ نے ہم جیسا دل پایا ہے تو نقل کیلئے سوچیں بھی نہ اس لئے کہ ایک دفعہ ہم امتحان دے رہے تھے  اور ہماری کرسی کھڑکی کے پاس تھی لیکن اتنا بھی نہیں کہ ہم کھڑکی میں رکھی کسی بھی چیز کو آرام سے اٹھا سکتے۔ کھڑکی میں ایک کتا ب پڑی تھی کتاب ہماری نہیں تھی اور نہ ہمیں معلوم  تھا کہ کتا ب کس مضمون کی ہے۔ اور کیا وہ ہمارے پرچے میں ہمیں کام آ بھی سکتی ہے کہ نہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ کانپتے جا رہے ہیں اور قلم کو جوابی کاغذ تک بھی نہیں لے جا پا رہے۔آخر کو ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ ایک استاد جی کو کہ جو ڈیوٹی دے رہے تھے بلایا اور التجا کی کہ وہ اس کتا ب کو اٹھا کر ہم سے دور لے جائیں۔ ان کا بھلا ہو کہ انہوں نے کتاب اٹھائی اور اُسے جا کر سپرنٹنڈنٹ کی میزپر رکھ دیا۔ ہماری جان میں جان آئی اور ہم نے پرچے کا جوا ب حل کرنے کی ابتدا کر لی۔ ہماری یہ بہادری ہمیشہ ہی ہمارے ساتھ رہی اور ہم نے سارے امتحان ہی بغیر کسی مدد کے پاس کر لئے۔

کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ ہمارے بہت سے دوست جو نقل کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے اور ہمیشہ پرزے کو اپنا مدد گاربنایا کرتے تھے وہ ہمیشہ ہی  فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوتے تھے۔ مگر  ہم جو پرزے سے ہمیشہ ڈرتے رہے ہم نے کبھی اُن کے برابر نمبر نہیں لئے۔ یہ اپنے اپنے ڈر کی بات ہے کہ ہم تو ہمیشہ نقل سے ڈرتے رہے اور یار دوست جن کو ڈر نہیں  تھا وہ ہم سے زیادہ نمبرو ں میں پاس ہوتے رہے۔ ہاں ایک بات جو ہمیں  اچھی لگتی ہے کہ ہمیں اپنی کالج کی نوکری میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے خصوصاً لیکچر کی تیا ری کر کے کلاس لی ہو اور کبھی ناکام بھی نہیں ہوئے اور یہ صرف اُس ڈر کی وجہ سے ہوا ہے کہ جو ہم کبھی امتحان میں نقل کی جرات نہیں کر سکے۔اسی لئے امتحان پاس کرنے کیلئے محنت کی  اور وہ محنت ہمیں اپنی ساری سروس میں کام آئی۔