یہ تو طے ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سیاسی ماحول میں جوڑ توڑ اور سیاسی رابطہ کاری میں تیزی برقرار رہے گی، جب تک یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں جاتا، مگر ان حالات میں بھی ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ وزیراعظم نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو حکومتی اتحادیوں کے متعلق بیان بازی سے روکتے ہوئے معاملات کو افہام و تفہیم سے آگے بڑھانے کا اشارہ دیا ہے یہ بہرحال اچھی پیش رفت ہے، اگر اس پر عمل ہوسکے تو صرف حکومتی اتحادی ہی نہیں،
اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بھی احترام کا تعلق قائم ہونا چاہئے اور مفاہمت کا دائرہ پورے سیاسی منظر نامے تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ہمارے سامنے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں سیاسی قیادت کے درمیان تلخیوں نے جمہوریت کو ہی نقصان پہنچایا ہے۔ایسے حالات میں کہ جب خطے میں امن کی صورتحال تسلی بخش نہیں اور عالمی منظر نامے پر بھی کشیدگی ہے،دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ملکی سیاست میں تلخی کے عنصر کو کم کیا جائے اور ذاتی حملوں سے فی الفور اور مکمل اجتناب کیا جانا چاہئے۔ گزشتہ تین چار برس میں سیاست میں ذاتیات کو ناگوار حد تک زیر بحث لایا گیا ہے اس رویے نے ماحول کو کشیدہ کیا ہے۔2018 سے یہ دیکھا جا رہا ہے
کہ حکومت اور حز ب اختلاف کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ اس عرصے میں اگرچہ پارلیمانی امور پر قانون سازی میں حزب اختلاف کی جانب سے کسی سنجیدہ رکاوٹ کا سامنا نہیں رہاتاہم ضروری قانون سازی کاعمل کسی حد تک ضرور متاثر ہوا۔ اگر جمہوری نظام کے دونوں فریقین میں رابطہ کاری کا کوئی بندوبست ہوتا اور مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ حالات کار بہتر ہوتے تو شاید اس وقت جو حالات ہیں ان کاسامنا نہ ہوتا۔ موجودہ سیاسی بکھیڑے کا کیا انجام ہوتا ہے، اس سے قطع نظر ہمارے لیے حالیہ چند برسوں کی سیاست میں یہ سبق موجود ہے کہ کسی حکومت کی کامیابی کیلئے یہ بنیادی ضرورت ہے کہ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا جانتی ہو،دیگر ممالک میں بھی حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان اختلاف رائے ہوتا ہے، مگر سیاسی بیانیہ کی تلخی کہیں بھی ایسی نہیں، جو گذشتہ 3، 4 سال میں ہمارے ملک میں دیکھی جا رہی ہے،
یہ طرز عمل ضرور عوام میں بھی سیاسی تلخیاں بھرنے کا باعث بنے گا۔ پاکستان جیسے ممالک کیلئے یہ خوفناک سیاسی ثقافت کی بنیاد ثابت ہوگی، کیونکہ جذباتی نوجوان تعمیری مقاصد کی جانب توجہ دینے کی بجائے سوشل میڈیا پر سیاست دانوں اور حکمرانوں کے سیاسی بیانیے کی جنگ لڑنا شروع کر دیں گے، یہ غلط اور منفی روایات پہلے ہی بہت پھیل چکی ہیں جس کی انتہا سیاسی بنیادوں پر سوسائٹی میں تصادم ہی ہو سکتی ہے، وزیراعظم گزشتہ دنوں ایک جلسے میں کہہ رہے تھے کہ ہمیں ایک قوم بننا ہے، یقینا یہی ہمارا مطمح نظر ہونا چاہئے۔ ایک قوم بننے کا عزم مثالی ہے، مگر اس سے پہلے ضروری ہے کہ سیاسی قائدین مفاہمت اور تحمل وبرداشت کاعملی مظاہرہ کرتے ہوئے تلخیوں کو کم کریں‘اہم قومی امور پر بل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے متفقہ موقف اپنائیں، انہی عوامل کودیکھتے ہوئے ہی عوام میں بھی اس کے اثرات دیکھنے میں آئیں گے۔