بہتری کی امید

تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے منظر نامہ بڑی حد تک واضح ہو چکا ہے تاہم  مسئلہ صرف سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں، حکومت اور اپوزیشن کا ہی نہیں ملکی وقار اور ساکھ کا بھی ہے‘ دنیا بھر میں جہاں جہاں جمہوری نظام ہے وہاں عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش ہوتی ہے اور نہایت خاموشی سے ان پر فیصلے بھی کرلئے جاتے ہیں‘ تمام کاروائی ایوان تک محدود رہتی ہے صرف ہمارے ہاں ہی اتنا ہنگامہ کیا جاتا ہے‘اس صورتحال میں سیاستدانوں کو احساس ہے یا نہیں۔ 22 کروڑ عوام پریشان ہیں کہ کل کیا ہوگا اور حالات درست کیسے ہوں گے، یہی غیر واضح حالات معیشت کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، سرمایہ کار بھی فیصلہ کرنے میں ہچکچاتے ہیں اور یہی ہچکچاہٹ معیشت کو سست رفتاری کا شکار کرتی ہے یعنی سیاسی عدم استحکام کے اثرات محض سیاسی نظام تک محدود نہیں رہتے بلکہ یہ معیشت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ان حالات سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سیاسی قیادت اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور زمینی حقائق کو تسلیم کرکے ایک دوسرے کو قبول کر لے‘  اور پارلیمانی عمل خوش اسلوبی سے مکمل کرائے‘ یہ ضروری ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا تقاضہ پورا کرنے کے بعد حکومت اور اپوزیشن جو بھی ہو، مل بیٹھ کر مشاورت کریں اور تعلقات کار بحال کریں۔دوسرے الفاظ میں نئے سرے سے شروعات کی جائیں،پتہ نہیں سیاسی معاملات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، بہر کیف ان حالات میں سیاسی جماعتوں کیلئے سبق اور عبرت کا بہت سامان ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا  وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری سیاست کے اعلی اصولوں کی پاسداری رواج نہیں پا سکی‘ کسی حکومت کے آنے جانے سے زیادہ ان اصولوں کی اہمیت ہے جو ہمارے ہاں ہر تیسرے چوتھے سال پامال ہوتے ہیں‘  ہمارا ملک اس کیفیت سے کب نکلے گا، ہم کب معیاری جمہوری معاشرے کی منزل تک پہنچ سکیں گے؟ یہ سوال قومی جمہوری اقدار کیلئے اہمیت رکھتے ہیں‘ عوام کسی سیاسی جماعت کو  حکومت کرنے کا مینڈیٹ تو دے سکتے ہیں مگر اس کے بعد کے حالات عوام کے بس کی بات نہیں،ہمارے گھر کی رونق ہمیشہ ہنگامے پر ہی موقوف رہی ہے، انتخابات کا ہنگامہ، حکومت سازی کا ہنگامہ، 3، 4 برس کے بعد حکومت کو گھر بھیجنے کا ہنگامہ، کاش ہمارا جمہوری کلچر ہنگامہ آرائی سے آگے بڑھ سکتا۔قوم کو اس وقت کا انتظار ہے جب ہم ایک پائیدار جمہوری ملک کے طور پر شناخت بنا سکیں۔جہاں جمہوریت تسلسل کے ساتھ اپنے ثمرات سے عوام کو مستفید کر رہی ہے۔ اور اسے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔جب موجودہ سیاسی محاذ آرائی گزر جائے تو سب کو اس جانب غور کرنا اور سوچنا چاہئے کہ ہم کیسے جمہوری استحکام کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں،بادی النظر میں جب تک قومی سیاست سے نفرت  اور عدم برداشت کا خاتمہ نہیں ہوتا سیاسی عدم استحکام سے جان چھڑانا ممکن نہیں۔ حکومت اور  اپوزیشن ایک نظام کا حصہ ہیں اور دونوں اپنی جگہ اہم بھی ہیں جس کا احساس دونوں جانب ہونا چاہئے، بد قسمتی سے ان کی آپس میں چپقلش ہماری قومی سیاست کی تصویر بن چکی ہے‘اس میں تبدیلی کیلئے جس انقلابی اقدام کی ضرورت ہے وہ کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں اگر سب سیاسی جماعتیں مل کر قومی مفاد میں اصلاح کا فیصلہ کریں تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔اس حوالے سے حکومت اور حزب اختلاف  کے لئے یہ مناسب موقع ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے مستقبل کے لئے ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ آنے والے وقتوں میں جمہوریت کی مثالیں دی جاسکیں اور جو حالات اس وقت درپیش ہیں ان کا کبھی سامنا نہ ہو جہاں جمہوری اداروں پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔حالات کا تقاضا ہے کہ آئین کے مطابق معاملات کو سلجھایا جائے اور جمہوریت کے تقاضوں کو بھی ہمہ وقت ملحوظ خاطر رکھا جائے یہی تمام سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کے مفادمیں ہے۔