ہزارہ کے ندی نالے

ہزارہ ڈویژن کا زیادہ حصہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے خصوصاً ضلع مانسہرہ کے زیادہ علاقے پہاڑی ہیں اور ان پہاڑوں کے ندی نالے عموماً ساون کے دنوں میں جب بارشیں زیادہ ہوتی ہیں انتہائی خطر ناک ہو جاتے ہیں‘ ان ندی نالوں پر کسی بھی جگہ حکومت کی طرف سے پل بنانے کی زحمت نہیں کی گئی اس لئے لوگوں کو ان ندی نالوں کو پیدل ہی عبور کرنا پڑتا ہے۔ اگربا رشوں کا موسم نہ ہو تو خیر مگر جب بارشوں کا موسم ہو تو یہ نالے انتہائی خطرناک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح بھی عموماً ہوتا ہے کہ پہاڑوں پربارش ہوتی ہے تو ان نالوں میں اچانک پانی آ جاتا ہے اور جن علاقوں سے یہ ندی نالے گزرتے ہیں ان میں اگر میدانی حصوں میں بارش نہ ہوئی ہو اور پہاڑی علاقوں پربارش ہوئی ہو تو یہ نالے میدانی علاقوں میں خصوصاً خطرناک ہو تے ہیں اس لئے کہ ان میں پہاڑوں کی بارش کا پانی اچانک آ جاتا ہے اور یہ بھی ہے کہ ان ندی نالوں پر پل نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے اور لوگ ان نالوں کو جب عبور کر رہے ہوتے ہیں تو ان میں اچانک پانی آ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے اب تک سینکڑوں لوگ ان نالوں ندیوں کا شکار ہو کرا س دنیاسے رخصت ہو چکے ہیں۔
صورت حال ایسی ہے کہ لوگوں کو یہ نالے عبور کرتے وقت عام طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں اچانک پانی آ جائے گا۔ جب پہاڑوں پربارش ہوئی ہو تو ان نالوں میں پانی آنا معمول کی بات ہے مگر وہ میدانی علاقے کہ جن سے یہ نالے گزر رہے ہیں ادھر بارش نہ ہوئی ہو تو عوام اس با ت سے بے خبر ہوتے ہیں کہ نالے میں پانی آ جائے گا۔ نالوں پر پل نہ ہونے کہ وجہ سے اچانک نالوں میں پانی ا ٓجانے سے کئی اموات ہو چکی ہیں‘چونکہ پہاڑی علاقے سے پانی آتا ہے اس لئے اس کی رفتار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان نالوں سے گزرنے والوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ نالے میں پانی آئے گا اس لئے اچانک آنے والا تیز رفتار پانی نالوں سے گزرنے والے لوگوں کوبہا لے جاتا ہے‘ اس طرح کے بہت زیادہ حادثات ان علاقوں میں ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں کہ جہاں سے یہ نالے یا دریا گزرتے ہیں۔ حکومتوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہے کہ ان نالوں اور دریاؤں پر اُن علاقوں میں پل بنا دیئے جائیں کہ جہاں سے عوام کو گزرنا ہوتا ہے۔
 عام طور پر ایسابھی ہے کہ کسی بھی گاؤں میں سکول نہیں ہے تو بچوں کو دوسرے گاؤں ان نالوں سے گزر کر جانا ہوتا ہے۔اسی طرح ایک سے دوسرے گاؤں آمدو رفت بھی انہی خشک ندی نالوں سے جاری رہتی ہے اور خصوصاً ایسے میں کہ ایک گاؤں کے لوگوں کو دوسرے گاؤں سودا سلف لینے کیلئے بھی جانا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ ان ہی نالوں سے گزر کر ناجا ناہوتا ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس خشک نالے میں کب پانی آ جائے۔ یعنی بقول پطرس بخاری کیا معلوم کہ کب کوئی کتا بھوکنا چھوڑ دے اور کاٹنا شروع کر دے۔ یعنی کب کوئی خشک نالہ کب اپنی خشک رہنے والی عادت تبدیل کر لے اور اس میں تیز ترین پانی کا بہاؤ شروع ہو جائے اسلئے کہ یہ نالے جن پہاڑوں سے ہو کر آتے ہیں اگر ان پر بارش ہو جائے تو ان نالوں میں چلنے والا پانی انتہائی تیز رفتار ہوتا ہے اورا س کے سامنے کھڑا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ ان نالوں کے کنڈھوں پر بسنے والے عوام نے ہزاروں دفعہ حکومت سے اپیلیں کی ہیں کہ ان نالوں پر جہاں سے عوام کا عام گزر ہوتا ہے پل بنا دیئے جائیں تاہم باربار التجا پر ابھی تک کسی نے کان نہیں دھر ا۔