یوکرین کے حالیہ بحران نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اقوام متحدہ مکمل طور پر عضو معطل ہے اور اس سے کوئی بھی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی تو محض خانہ پری کا ادارہ ہوا کرتی تھی، اب سلامتی کونسل بھی کچھ ایسے ہی ادارے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سلامتی کونسل میں بحث ہوتی ہے، ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور بس، معاملات یہاں تک ہی رہتے ہیں، کوئی حل نہیں نکلتا یا نکلنے نہیں دیا جاتا، یوکراین کے بحران کو بھی اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے عالمی اداروں نے محض تماشائی کی حیثیت سے دیکھا، یورپی یونین اور معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم نیٹو نے بھی اس معاملے میں کچھ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی، صورت حال کو بگڑنے دیا گیا اور جب روس نے لشکر کشی کی تب بھی کوئی حرکت نہیں کی، سوال یہ ہے کہ جب یہ ادارے کسی بحران کو روک نہیں سکتے، کوئی حل نہیں نکال سکتے اور متاثرہ عوام کیلئے بہتر اور آبرومندانہ زندگی کی راہ ہموار نہیں کر سکتے تو پھر ان کے وجود کا جواز کیا رہ جاتا ہے۔ یہ عالمی نظام دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر بنایا گیا تھا جو اب ایک عضو معطل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اقوام متحدہ اور اس سے جڑے اداروں نے بین الاقوامی تنازعات کا موثر اور قابل عمل حل تلاش کرنے میں کوئی ایسی کارکردگی نہیں دکھائی جسے سراہا جا سکے، تاریخ کا شغف رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم نے پہلی جنگ عظیم میں یورپ کی متعدد اقوام کی تباہی کے بعد بنائے جانے والے عالمی اداروں کی ناکامی سے جنم لیا تھا، پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے معاہدے میں جرمنی اور اس کے حلیفوں سے انتہائی امتیازی نوعیت کا سلوک روا رکھا گیا تھا جس کے نتیجے میں جرمن اور اس کے ہم خیال ممالک میں یورپ کی برتر ریاستوں کے لیے نفرت پروان چڑھتی گئی، ایڈولف ہٹلر نے پہلی جنگ عظیم کے آخری لمحات میں جرمنی سے روا رکھے گئے اہانت آمیز سلوک کا بدلہ لیا، بہرکیف دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کو چلانے کیلئے جو سیٹ اپ تیار کیا گیا، اس میں اقوام متحدہ مرکزی پیرنٹ ادارہ تھا، اس کے ساتھ جنگ میں تباہ ممالک کی تعمیر نو کیلئے عالمی بینک تشکیل دیا گیا۔
آئی ایم ایف قائم کرنے کا بنیادی مقصد بھی کمزور معیشتوں کو مدد فراہم کرنا تھا تاکہ وہ ڈھنگ سے کام کریں اور ان ممالک کے عوام عزت و خوشحالی کے ساتھ جینے کے قابل ہو سکیں، لیکن بعد میں یہ ادارہ غریب ریاستوں کا خون نچوڑنے لگا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ سات عشروں کے دوران دنیا نے دیکھ لیا کہ اقوام متحدہ سے کسی بھی معاملے میں کوئی بھرپور کلیدی کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکا، اس عرصے میں دنیا نے بہت سے بحران دیکھے، کئی ممالک پر جنگ مسلط کی گئی، متعدد ممالک میں خانہ جنگی کو ہوا دی گئی، صرف ملک نہیں پورے پورے خطے تباہی کی نذر ہو گئے، بہت سے چھوٹے ممالک کے قدرتی وسائل کو لوٹا گیا، عراق اور لیبیا کے تیل کی دولت مال مفت دل بے رحم کی طرح ہڑپ کی گئی، روکنے والا تو کیا کوئی ٹوکنے والا بھی نہیں تھا، متعدد دیرینہ تنازعات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اب تک موجود ہیں اور ان پر کسی بھی طرح کی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں، امریکہ، یورپ اور دیگر طاقتور ممالک عالمی اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے آئے ہیں، کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ ان کو مذموم ارادوں سے باز رکھے۔ اقوام متحدہ کے موجودہ سیٹ اپ میں کوئی بھی مثبت یا بڑی تبدیلی کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا، کشمیر اور فلسطین کے مسائل سات عشروں سے سلامتی کونسل کے سرد خانے میں پڑے ہیں، بڑی طاقتیں اپنی سہولت اور مفاد کے مطابق کسی بھی قرارداد پر عمل کراتی ہیں اور جس ملک کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، کمزور کر کے ہی دم لیتی ہیں، انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کو الگ کر کے باضابطہ خود مختار ریاست کا درجہ دے دیا گیا، کوئی بھی بڑی طاقتوں کے آگے بند نہ باندھ سکا، کیونکہ ایسا کرنا ممکن نہیں تھا، دوسری جنگ عظیم کے بعد ابھرنے والی دنیا میں روس، چین اور دیگر مضبوط ریاستوں کو، عالمی نظام میں کوئی بھرپور اور موثر کردار ادا کرنے سے روکنے پر غیر معمولی توجہ دی گئی۔
سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین کو مشرقی یورپ تک محدود رکھنا ہی مغرب کا بنیادی مقصد تھا، تب چین ابھی ابھرا نہیں تھا، اس لئے اس کے حوالے سے زیادہ فکر نہیں تھی، اب چین اور روس دونوں ہی ابھر چکے ہیں، چین نے اقتصادی طور پر مضبوط حیثیت حاصل کر لی ہے اور اب اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں آچکا ہے، روس بھی اپنی تاریخ کے سنہرے دور کو دہرانا چاہتا ہے۔ دنیا اب نئے موڑ پر آ چکی ہے، ایسے میں سیاست و معیشت کا نیا نظام ناگزیر ہے، نیا نظام ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ چند ریاستیں سارے مزے لے اُڑیں، اب ناگزیر ہے کہ بڑی ریاستوں کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی پسماندہ اقوام کا بھی خیال رکھا جائے، انسان ابھی اکیسویں صدی میں جا رہا ہے آج کے انسان کو بلند نگاہی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، مادی ترقی تو بہت کر لی گئی اب اخلاقی معاملات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، آج کی دنیا کو ایسے عالمی اداروں کی ضرورت ہے جو سب کی ضرورتوں کا خیال رکھیں، معاملات محض وعدوں اور دعووں تک محدود نہیں رہنے چاہئے، باتیں صرف ہوا میں نہ ہوں، زمین پر بھی کچھ نظر آنا چاہئے۔ اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے کلیدی ادارے جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، عالمی بینک، آئی ایم ایف مجموعی طور پر اپنے اغراض و مقاصد پورے کرنے سے قاصر اور عضو معطل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، ان اداروں کی کارکردگی سے دنیا بھر کے غریب ممالک اور ترقی میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کا کوئی بھلا نہیں ہو رہا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان اداروں کے جال میں غریب ممالک کو پھانسا جاتا ہے، اب یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ ایسے نئے عالمی ادارے معرض وجود میں لائے جائیں جن سے دنیا کا بھلا ہو اور تنازعات کو سلیقے سے نمٹانا ممکن ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑی طاقتوں سے بات منوائی بھی جا سکے، اقوام متحدہ کا موجودہ سیٹ اپ ناکام ہی اس لیے ہوا کہ بڑی طاقتوں نے اسے اپنی جاگیر سمجھ لیا تھا، اب جو سیٹ لایا جائے گا وہ کسی کی جاگیر یا باجگزار نہ ہو آزادانہ کام کرے اور کچھ کر کے دکھائے،اور نتائج لائے۔