اقتدار کی جنگ اور سیاسی مفادات کے شور میں ملک و قوم کو درپیش اصل مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں بلکہ ان مسائل کا احساس ہی ختم ہو رہا ہے، سب سے اہم اور حساس معاملہ پانی کے زیر زمین ذخائر میں مسلسل ہونے والی کمی کا بحران ہے، ایک خبر کے مطابق زیر زمین پانی 600 فٹ گہرا ہو چکا ہے، یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے، بلاشبہ یہ ایک تشویشناک معاملہ ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، زیر زمین پانی کی سطح گہری کیوں ہوئی، اس بات سے ہم سب واقف ہیں، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پانی کی طلب اور ضرورت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ضرورت زیر زمین پانی نکال کر پوری کی جارہی ہے، دوسری طرف آبی ذخیروں کی تعمیر پر بروقت مناسب توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث ہمارے دریاؤں میں بھی پانی کم ہوتا جارہا ہے، جس سے زراعت کا شعبہ بھی متاثر ہو رہا ہے، یہ کمی ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیر زمین پانی نکال کر پوری کی جا رہی ہے۔
تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ دریاؤں میں پانی کم ہونے کے باعث زیر زمین رسا ؤمیں کمی ہوئی ہے، پاکستان میں ہر سال کم و بیش 50 ملین ایکڑ فٹ پانی زمین کے نیچے سے نکالا جاتا ہے، یہ مقدار اس سے کہیں زیادہ ہے جس سے زیر زمین پانی کا ذخیرہ برقرار رہ سکتا ہے، زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کا سب سے بڑا سبب یہی ہے۔ یہ بالکل سیدھی اور سامنے کی بات ہے کہ اگر اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو پانی کی دستیابی مزید کم ہو جائے گی، ضرورت اس بات کی ہے کہ سروس سٹیشن اور سوئمنگ پولز میں پانی کے ضیاع کو روکا جائے، جہاں پانی کی ری سائیکلنگ ہو سکتی ہے وہاں اس کا اہتمام و انتظام کیا جائے اور بارشی پانی کے ضیاع کو روک کر زیر زمین رسا ؤکو ممکن بنایا جائے، جو آبی ذخیرے زیر تعمیر ہیں، ان کی جلد تکمیل کی جائے۔
ہر صوبے کے اپنے مسائل، تحفظات اور توجہات ہیں۔ انڈس ریور واٹر اتھارٹی نے سینیٹ کے فورم برائے پالیسی کو بتایا تھا کہ بڑے آبی ذخیرے کی عدم دستیابی کے باعث ہر سال 21 بلین ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں بہا دیا جاتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق انڈس ریور سسٹم کو سالانہ 134.8 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل ہوتا ہے، اس میں تھوڑا سا ہی ذخیرہ کیا جاتا ہے، باقی سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے۔ سب دیکھتے ہیں کہ ہماری دولت سمندر برد ہو رہی ہے لیکن کوئی اس ضیاع کو روکنے کیلئے تیار نہیں۔ ہماری اجتماعی حالت بھی ایسی ہی ہوچکی ہے، حالات کے کنٹرول سے باہر ہونے سے پہلے ہی ہمیں ہوش کے ناخن لینے اور قومی آگاہی کے ساتھ پانی کے بڑے ذخائر تعمیر کرنے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی، کیونکہ پانی زندگی ہے اور اس کا کوئی متبادل بھی نہیں۔